ایران کے ایک فلم ہدایت کار بابک خرم دین کو ان کے والدین نے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کر دیا ہے۔
بابک کے والدین نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں نشہ آور چیز کھلانے کے بعد قتل کیا گيا تھا۔
اس واقعے کا بھیانک ترین پہلو یہ ہے کہ قتل کے بعد والدین نے ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے کوڑے میں پھینک دیے تھے۔
ان کی لاش کی باقیات مغربی تہران کے علاقے اکباتان میں کوڑے کے ڈبوں اور ایک سوٹ کیس سے ملیں، کہ جہاں ان کا خاندان مقیم تھا۔ شناخت انگلیوں کے نشانات کی مدد سے کی گئی ہے۔
والدین کی گفتگو سے واضح ہے کہ یہ غیرت کے نام پر کیا گیا قتل ہے کیونکہ بابک غیر شادی شدہ تھے اور اس حوالے سے اُن کی آخری روز والد کے ساتھ بحث بھی ہوئی تھی۔ اِس وقت بابک کے والدین زیر حراست ہیں اور پولیس مزید شواہد اکٹھے کر رہی ہے۔
بابک کے 81 سالہ والد کے مطابق ہمارا بیٹا غیر شادی شدہ تھا اور ہمیں ہراساں کرتا تھا۔ در حقیقت ہماری زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی تھیں۔ ہم نے اس کی موجودگی میں ایک دن کے لیے خود کو محفوظ نہیں سمجھا۔ وہ ہمیں گالیاں دیتا اور ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتا تھا۔ پھر جب سے کرونا وائرس کی وبا آئی، وہ آن لائن پڑھاتا تھا لیکن سبق دینے کے بہانے طالبات کو گھر پر بلاتا اور ان کے ساتھ تنہا کمرے میں ہوتا۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کمرے میں کیا کرتا تھا۔ اس کے رویّے سے تنگ آکر بالآخر ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی عزت کو یوں نیلام ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور اس سے جان چھڑا کر رہیں گے۔ ہمیں اپنے اس قدم پر کوئی افسوس نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ایران دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں آج بھی غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال ایک اور ہولناک واقعہ پیش آیا جب 37 سالہ رضا اشرفی کے اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کر کے اس کا گلا کاٹ دیا تھا۔ بیٹی رومینا اشرفی کی عمر صرف 14 سالہ تھی، جس نے ایک 29 سالہ شخص کے ساتھ گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ واضح رہے کہ ایران میں قانوناً شادی کی کم از کم عمر 13 سال ہے۔ بہرحال، اس کے گھر سے غائب ہو جانے کے بعد پانچ روز بعد پولیس نے دونوں کو ڈھونڈ نکالا اور لڑکی کو والدین کے حوالے کر دیا۔ بعد ازاں باپ نے بیٹی کو قتل کر دیا۔
اس واقعے کے بعد ایران میں غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سخت قانون سازی کے مطالبات زور پکڑ گئے تھے تاہم اب بھی قانون میں موجود سقم کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل جاری ہیں۔
جواب دیں