پاکستان کا کمزور شعبہ صحت اور "ڈاکٹر دلہنوں” کا مسئلہ

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں صحت کا نظام سخت دباؤ کا شکار ہے، لاکھوں خواتین ڈاکٹرز ایسی ہیں جو محض گھروں پر بیٹھی ہیں اور اپنی صلاحیتیں برباد کر رہی ہیں حالانکہ ملک میں کروڑوں افراد کو طبّی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں اور ان کی شعبے کو سخت ضرورت ہے۔

پاکستان میں کئی خاندان اپنی بچیوں کی میڈیکل کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے، لیکن کیریئر بنانے کے لیے نہیں، صرف اچھی جگہ شادی کے امکانات بڑھنے کی وجہ سے۔ یہ "ڈاکٹر دلہنیں” ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مل جائیں گی کہ جن کی مہارتیں، صلاحیتیں اور تعلیم یونہی گھر بیٹھے ضائع ہو رہی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے سارا سعید خرم نے ایک ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارم تشکیل دیا جو خواتین ڈاکٹروں کو اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے دیہی اور دور دراز علاقوں میں موجود مریضوں کے مشورے دینے کے قابل بناتا ہے۔ ‘صحت کہانی’ کی چیف ایگزیکٹو سارا سعید کہتی ہیں کہ پاکستان میں تقریباً نصف آبادی نے زندگی میں کبھی ڈاکٹر کی صورت نہیں دیکھا۔ اس صورتِ حال میں ایک اور جو بڑا چیلنج درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ 60 فیصد ڈاکٹرز خواتین ہیں اور ان کی اکثریت کام نہیں کرتی۔”

صحت کہانی ان اداروں میں سے ایک ہے جو ترقی پذیر ممالک میں صحت کے نظام کی خامیوں کو دور کر کے ایک ایک بہتر دنیا تشکیل  دینا چاہتے ہیں، یہ ایسا کام ہے جسے کووِڈ—19 کے اس بحران میں کرنے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ وبا کے دوران معمول سے 10 گنا زیادہ مریض دیکھنے والی سارا سعید سمجھتی ہیں کہ ان کا ماڈل ان ترقی پذیر ملکوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے جہاں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔

‏2017ء میں لانچ ہونے والا ‘صحت کہانی’ اب تک پاکستان میں 35 دیہی ٹیلی میڈیسن کلینک بنا چکا ہے، جہاں مریض معمولی فیس ادا کر کے نرس کے پاس جا سکتا ہے جو اسے آن لائن ایک ڈاکٹر سے منسلک کر دے گی۔ نرس کو اس کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ڈاکٹر کی رہنمائی سے معائنہ کرے، جو سینکڑوں میل دُور کہیں اپنے گھر میں بیٹھا ہوگا۔ مریض اسمارٹ فون کی مدد سے ڈاکٹروں کے ساتھ بذریعہ ایپ براہِ راست رابطے میں رہ سکتا ہے۔

سارا سعید، جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں، کہتی ہیں کہ "دلہن ڈاکٹر” کے بحران نے ‘برین ڈرین’ سے خراب ہوتی صورتِ حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے کہ جس میں 2 لاکھ تربیت یافتہ ڈاکٹروں میں سے صرف 90 ہزار عملاً اپنا کام کر رہے ہیں۔ "لڑکی اگر ڈاکٹر ہو تو اس کے لیے بہت اچھے رشتے آتے ہیں، اس لیے سب یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بنے لیکن کوئی بھی اپنی بہو سے کام نہیں کروانا چاہتا۔ اب ہمارا پلیٹ فارم ایسی خواتین ڈاکٹرز کے لیے مواقع پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے گھر پر ورچوئل کلینک کھول سکتی ہیں۔”

صحت کہانی کووِڈ-19 کی پہلی لہر کے دوران تمام مریضوں کو مفت مشورے فراہم کر چکا ہے۔ ادارے نے ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں بھی ایپس انسٹال کیں تاکہ کووِڈ-19 کے مریضوں کے علاج میں مدد دی جا سکے اور جونیئر ڈاکٹر انتہائی نگہداشت کے ماہرین سے فوری مشورے لے سکیں۔ سارا کہتی ہیں "وبا کے دوران اس طرح کے حل اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ کئی لوگوں کی جانیں بچا چکا ہے۔”

One Ping

  1. Pingback: احساس نشو و نما منصوبے کو بہتر بنایا جائے گا، ثانیہ نشتر - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے