دونباس، یوکرین میں تعینات 24 سالہ اناستاسیا ایک ریڈیو اسٹیشن آپریٹر ہیں، جن کا کام ہے محاذ پر موجود سپاہیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کو ممکن بنانا۔ وہ میئرسک شہر کے قریب موجود ہیں کہ جہاں حالیہ چند ماہ کے دوران کئی سپاہی اپنی جانوں سے گئے ہیں۔
اناستاسیا چھ سال پہلے اپنے والدین کی مخالفت کے باوجود فوج میں شامل ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ "میں نے فوج میں شمولیت اس لیے اختیار کی کیونکہ اگر میں ایسا نہیں کروں گی تو کون کرے گا؟ مجھے فوج کے لیے خدمات انجام دینے پر فخر ہے اور میں اسے اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہوں۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ میرا خاندان اس بات کو پسند نہیں کرے گا لیکن میں نے اپنی ماں کو بتائے بغیر ہی فوج میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد تو واپسی کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔”
38 سالہ آلا آکیمووا بھی فوج کا حصہ ہیں اور ان کی ذمہ داری باورچی خانے میں ہے جہاں فوجیوں کے لیے کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ وہ جنگ میں مدد اور اپنے شوہر کے قریب رہنے کے لیے فوج میں شامل ہوئیں۔ کہتی ہیں کہ "میں گھر پر بچوں کے ساتھ ہوتی تھی لیکن اب وہ بڑے ہو گئے ہیں اور میں چاہتی تھی کہ زندگی کو کسی دوسرے مقصد کے کام لاؤں۔”
وزارتِ دفاع کے مطابق یوکرین کی فوج کا 23 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے، جس میں پچھلے 10 سال میں تقریباً 15 گُنا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے تقریباً آدھی خواتین سپاہی ہیں اور باقی مددگار سویلین کردار نبھاتی ہیں۔ 2008ء میں فوج میں صرف 1,800 خواتین تھیں لیکن 2017ء تک یہ تعداد بڑھتے ہوئے 23,000 تک جا پہنچی اور 2020ء میں 29,760 ہو گئی۔
یہ اضافہ روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا ہے جس کے دوران پہلے روس نے کریمیا پر قبضہ کیا اور اب دونباس میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں خواتین کے لیے مسلح افواج میں ملازمت حاصل کرنا نسبتاً آسان ہے، وہیں اس کے چیلنجز بھی مختلف ہیں۔
ایک آزاد محقق اور فوج میں خواتین کے کردار پر تحقیقات کرنے والے یوکرین کے Invisible Battalion پروجیکٹ کا حصہ ہینا ہرسنکو کہتی ہیں کہ خواتین کا روایتی کردار اب بھی موجود ہے اور اسے بدلنا مشکل ہے۔ لوگ مخصوص زندگی کے عادی ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یوکرین میں مخصوص صنفی کردار دراصل سوویت دور کی باقیات ہیں کہ جب ریاست اپنے مقاصد کے لیے خواتین کو بچے پیدا کرنے اور انہیں پالنے پر توجہ رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتی تھی۔ نتیجتاً خواتین طب یا دفتری کام کے شعبوں تک محدود رہ گئیں لیکن اب حالات آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔
اناستاسیا سب سے اگلے محاذ پر جانا چاہتی ہیں لیکن انہیں اندازہ ہے کہ یہ ایک چیلنج ہوگا۔ کہتی ہیں "ایسے کام بھی موجود ہیں جنہیں کرنے کی اجازت خواتین کو ملنا آسان نہیں مثلاً اگلے محاذ پر جانا۔ تمام خواتین کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ بہت سے مرد اسے پسند نہیں کرتے۔”
محاذ پر خواتین کے لیے خطرہ محض کشیدگی کا نہیں ہے۔ Invisible Battalion منصوبے کے تحت ہینا نے جنسی ہراسگی کے معاملات کو بھی دستاویزی صورت دی ہے، جن میں خواتین سپاہیوں کے نام رکھنا، انہیں چھیڑنا اور چھونا تو ہے ہی، مرد ساتھیوں کی جانب سے اُن کے ساتھ ریپ کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ہینا کہتی ہیں کہ یہ مسئلہ سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بڑا اور گمبھیر ہے، کیونکہ اس صورت حال کا سامنا کرنے والی کئی خواتین سامنے آنے سے گھبراتی ہیں۔
ہینا نے کہا کہ گو کہ فوج میں ہزاروں خواتین کام کر رہی ہیں لیکن قدامت پسندانہ اور پدر شاہی (patriarchic) نظام اب بھی اپنا وجود رکھتا ہے اور یہ نظام خواتین کا خیال رکھنے کا نہیں ہے۔ بسا اوقات ان کے پاس شکایت کرنے کے لیے بھی کوئی نہیں ہوتا۔”
خواتین کی تحریک "ZA MAJBUTNE” کی رہنما اور یوکرینی پارلیمان کی سابق رکن ارینا سسلووا سمجھتی ہیں کہ صورتِ حال وقت کے ساتھ کچھ بہتر ہوتی ہے۔ "پانچ سال پہلے تو خواتین کو ٹینک چلانے، اسنائپر بننے، سبوتاژ اور نگرانی کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی اجازت تک نہیں تھی بلکہ وہ پیادہ فوج کا حصہ بھی نہیں بن سکتی تھیں۔” پارلیمان میں صنفی مساوات اور امتیاز کے حوالے سے ذیلی کمیٹی کی چیئر رہنے والی ارینی کہتی ہیں کہ لیکن جنسی تشدد سے نمٹنا بڑا چیلنج ہے اور یہ محض یوکرین کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، خاص طور پر ان کا جو مسلح تنازعات سے دو چار ہیں۔ اس لیے ایک ہاٹ لائن بنانے، تحقیقات کرنے اور سزا دینے کا عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے اس وقت وجود نہیں رکھتا۔ جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان کی اچھی طرح تحقیقات نہیں کی جا رہیں۔
فوج میں طب کے شعبے سے وابستہ ارینا بازیکینا ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جو سامنے آئیں اور بتایا کہ جب انہوں نے کمانڈر سے اگلے محاذ پر جانے کی درخواست کی تو ان کا کہنا تھا کہ اپنے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لیے میرے گھر آنا۔ جہاں ان پر مبینہ طور پر جنسی حملہ کیا گیا۔ فوج نے انہیں مقدمہ کرنے سے روکا اور پھر معاملہ "ناکافی شواہد” کی بنا پر ختم کر دیا۔
یوکرین کی مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کی مشیر برائے صنفی معاملات وکٹوریا آرناتووا نے فوج میں ریپ کے الزامات کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت ہراسگی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی میکانزم مرتب کر رہی ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی پر کام کیا جا رہا ہے اور مختلف دستاویزات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ایسا میکانزم کس طرح تیار ہو سکتا ہے کہ جس میں شکایات کے طریقے اور اس عمل کے دوران شکایت کرنے والے کے تحفظ کے معاملات شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طریقے خفیہ اور بے نام ہونے چاہئیں کیونکہ یہ نہ صرف فوج بلکہ پورے معاشرے کی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔
جواب دیں