پاکستان میں معذوری سے دو چار خواتین درحقیقت دُہرے عذاب کا شکار ہیں۔ ایک طرف معاشرے میں پنپتا ہوا صنفی امتیاز ہے اور دوسری جانب ان کی معذوری، جو صحت کے حوالے سے بنیادی ترین مصنوعات اور معلومات تک رسائی کی راہ میں آڑے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی کارکن اور مصنفہ تنزیلہ خان نے معذوری سے دو چار خواتین کو تولیدی صحت (reproductive health) کے حقوق کے لیے جدوجہد کو اپنا مقصد بنا رکھا ہے۔
سیالکوٹ میں پیدا ہونے والی تنزیلہ پیدائشی طور پر دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ویل چیئر پر گزاری ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ چل نہیں سکتی لیکن اس کی وجہ سے میں رک نہیں جاتی، کیونکہ کہیں جانے کے لیے ٹانگوں کی نہیں ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔
30 سالہ تنزیلہ دو ناول لکھ چکی ہیں اور پہلی کتاب انہوں نے 16 سال کی عمر میں لکھی تھی۔ کہتی ہیں کہ "میں کھیلوں میں تو حصہ نہیں لے سکتی تھی لیکن ہاتھ تو سلامت ہیں، اس لیے ہاتھوں کا استعمال شروع کیا اور لکھنے کا آغاز کیا۔ جب پہلی کتاب چھپی تو اس کے بعد کسی نے مجھے "ویل چیئر والی بچی” نہیں کہا، بلکہ "کتاب لکھنے والی بچی” کے طور پر مشہور ہو گئی۔
یونیورسٹی آف لندن سے تعلیم یافتہ تنزیلہ کا ایک کارنامہ GirlyThings نامی منصوبہ ہے۔ ایک ایسی ایپ جو خواتین کو نہ صرف تولیدی و جنسی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ انہیں حیض کے ایام میں درکار مصنوعات بھی فراہم کرتی ہے، لیکن اس ایپ کی خاص توجہ معذور خواتین پر ہے۔ تنزیلہ بتاتی ہیں کہ انہیں خاص مصنوعات لینے کے لیے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی کہ جہاں وہ اپنی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہوئے اور ویل چیئر کی رسائی کے ساتھ جا کر کچھ خرید سکیں۔ یہیں سے انہیں GirlyThings کا خیال آیا۔ یہ ایپ بالکل اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح آجکل ایپ کے ذریعے فوڈ ڈلیوری ہوتی ہے۔
ایپ کے علاوہ GirlyThings کی ہاٹ لائن اور ویب سائٹ بھی ہے، جس کے ذریعے یہ معلومات تو فراہم کرتی ہی ہے لیکن ساتھ ہی خواتین کو درکار مناسب اور درست ترین مصنوعات بھی دیتی ہے۔
تنزیلہ کہتی ہیں کہ معذوری بذاتِ خود ہمارے ہاں ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے، پھر جب معاملہ خواتین کا ہے اور اس پر بھی ان کی جنسی و تولیدی صحت کا ہو تو گویا یک نہ شد، دو شد والی بات ہو جاتی ہے۔
جواب دیں