لبنان میں کرونا وائرس کی وبا سے معاشی بحران مزید پیچیدہ ہو چکا ہے اور اس سے کم عمری یا بچپن کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک میں یونیسیف کے چائلڈ پروٹیکشن پروگرام کی سربراہ یوہانا ایرکسن کہتی ہیں کہ "جو ہم میدانِ عمل میں دیکھ رہے ہیں اور ہمیں مقامی ادارے بھی بتا رہے ہیں، ان سے ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ آج کے مشکل حالات کی وجہ سے بچپن کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کا ایک غلط طریقہ ہے۔
سیو دی چلڈرن آرگنائزیشن، لبنان سے تعلق رکھنے والی فرح صلحاب نے کہا ہے کہ وبا کے آغاز سے اب تک ہم نے کووِڈ-19 اور بچپن کی شادی میں براہِ راست ربط دیکھا ہے۔
یونیسیف نے مارچ میں ایک بیان دیا تھا کہ وبا کے نتیجے میں اگلی ایک دہائی کے دوران مزید 1 کروڑ لڑکیاں اس خطرے کی زد میں آ سکتی ہیں۔ گو کہ کم عمر لڑکوں کو بھی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن بچپن کی شادی کے سنگین اثرات لڑکیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ لبنان میں صحت اور معیشت کے بحرانوں سے ایسے حالات جنم لے رہے ہیں جن کے نتیجے میں کم عمری کی شادیاں بڑھ رہی ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک انجمن ‘پلان انٹرنیشنل’ نے ایک نظر گزشتہ بحرانوں پر ڈالی کہ ان کے دوران کیا ہوا تھا، مثلاً2014ء میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا میں۔ پھر مئی 2020ء میں لاک ڈاؤن میں رہنے والے بچوں کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی اور سب سے بڑی وجہ اسکولوں گی بندش کو پایا۔ ادارے کے مطابق صرف اسکول بند ہونے سے ہی بچپن کی شادی کے خدشات میں 25 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
فرح کا کہنا ہے کہ لبنان میں کئی بچوں کے لیے آن لائن تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں، لیکن بہت سے لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ سرے سے ہی منقطع ہو گیا ہے۔ کئی لڑکیوں سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ انہیں ثانوی تعلیم مکمل ہوتے ہی شادی پر مجبور کر دیا گیا۔
ایرکسن نے کہا کہ اگر لبنان میں کل ہی تمام اسکول کھل جائیں، تب بھی بہت سی لڑکیاں دوبارہ اپنے تعلیمی ادارے کی صورت نہیں دیکھ پائیں گی۔
پلان انٹرنیشنل کی تحقیق کے مطابق بچپن کی شادیوں میں اضافہ کرنے والے دیگر عوامل میں ترقیاتی یا امدادی پروگراموں کا خاتمہ، والدین یا ان میں سے کسی ایک کی یا سرپرست کی وفات اور معاشی دباؤ اہم ہیں۔ اور یہی آخری وجہ لبنان میں سب سے نمایاں ہے۔ گو کہ ملک میں جہیز کی روایت نہیں ہے اور شادی کے وقت لڑکی کو پیسے بھی نہیں دیے جاتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد وہ معاشی طور پر اپنے شوہر کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ایرکسن کہتی ہیں کہ "معاشی تناظر سے لڑکی کا خاندان اسے ایک مثبت پیش رفت سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں وہ اپنی بچی کے لیے بہترین قدم اٹھا رہے ہوتے ہیں۔”
اس وقت لبنان میں سب سے تشویش ناک بات کم عمری کی شادی کا بڑھتا ہوا رحجان ہے۔ ماضی میں ملک کے مخصوص طبقوں میں کم عمری کی یا جبری شادی زیادہ تھی۔ یونی سیف نے 2015ء اور 2016ء کے دوران جو اعداد و شمار اکٹھے کیے تھے، ان کے مطابق تقریباً 6 فیصد خواتین کی شادی ان کے 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہوئی۔ لیکن ملک میں موجود مہاجرین میں یہ شرح زیادہ تھی۔ مثلاً لبنان میں موجود فلسطینی مہاجرین میں 12 فیصد، شام سے فلسطینی مہاجرین میں 25 فیصد اور شام کی خانہ جنگی سے دوچار خواتین مہاجرین میں تقریباً ایک چوتھائی ایسی تھیں کہ جن کی شادی 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہو گئی۔
لیکن اب تحقیق بتاتی ہے کہ لبنان میں مہاجرین کے علاوہ بھی بچپن کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایرکسن کے مطابق اب دیگر طبقات بھی متاثر ہو رہے ہیں اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے یہ امر حیران کن نہیں ہے۔
فرح کہتی ہیں کہ صحت اور معیشت کے بحران سے قبل لبنان میں کم عمری کی شادیوں میں کمی آ رہی تھی لیکن اب ان برادریوں میں بھی یہ مسئلہ نمایاں ہو رہا ہے جہاں پہلے اس کا وجود ہی نہیں تھا۔
قریبی ملکوں مثلاً عراق، مصر اور اردن کے مقابلے میں لبنان میں بچپن کی شادیاں بڑھنے کی ایک اور وجہ ملک میں قانون کی عدم موجودگی بھی ہے۔ ملک میں وراثت، بچے کی تحقیق اور شادی کی قانونی عمر جیسے معاملات کے حوالے سے "پرسنل اسٹیٹس” کا قانون موجود ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف مذہبی گروہ شادی کی عمر کا تعین خود کرتے ہیں۔ مثلاً کیتھولک مسیحی 14 سال اور یونانی آرتھوڈوکس گرجے سے تعلق رکھنے والے مسیحی 18 سال کی عمر کو شادی کی کم از کم عمر گردانتے ہیں۔ اس ہفتے ملک کے معروف سنّی مسلمان ادارے نے شادی کی کم از کم عمر 18 سال کر دی ہے جبکہ چند ہفتے پہلے شیعہ مسلم ادارے کا کہنا تھا کہ کسی کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن لبنانی ڈیموکریٹک ویمنز گیدرنگ سے تعلق رکھنے والی کمالی شرفین کہتی ہیں کہ بچپن کی شادی سے درپیش خطرات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ضروری ہے۔ صرف قانون سازی سے کام نہیں چلے گا۔ شعور اجاگر کرنامزید آگے بڑھنے اور قانون میں تبدیلی کے لیے اہم محرّک ہے۔
لبنان کی سوِل سوسائٹی کئی سالوں سے ایک قانون کا مطالبہ کر رہی ہے۔ 2017ء میں پارلیمان میں ایک قانون پیش بھی کیا گیا تھا جس کے تحت کم عمری کی شادی پر پابندی لگ جاتی، لیکن اسے منظوری نہیں مل سکی۔
اس اہم مسئلے سے نمٹنے والے اداروں کے لیے حالیہ اضافہ کوئی اچھی خبر نہیں لیکن ایرکسن کا کہنا ہے کہ انہیں اندازہ ہے کہ اس کو کم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ "شام میں خانہ جنگی سے پہلے صرف 10 فیصد لڑکیاں ایسی تھیں جن کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہوئیں۔ لیکن آج لبنان میں رہنے والے شامی مہاجرین میں یہ 25 فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ محض سماجی یا ثقافتی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا تب ہوا جب خاندانوں کو ہجرت کرنا پڑی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تبھی وہ اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی پر مجبور ہوئے۔ اس لیے اس گمبھیر مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھانا لازمی ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ لبنان کو قانون سازی کرنا ہوگی۔ پھر خاندانوں اور بچوں کے لیے ضروری خدمات اور امداد فراہم کرنا ہوں گی کہ جن میں تعلیمی مواقع اور نو عمر افراد کو جنسی و تولیدی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کرنا اور خاندانوں کو ہنگامی حالات میں نقدی کی صورت میں مدد دینا شامل ہیں۔ آخر میں صنفی کردار کے حوالے سے رویّوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان تمام اقدامات سے ایسا ماحول بنے گا جس سے بچپن کی شادیوں میں کمی آئے گی۔
جواب دیں