عید پر پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کی تصاویر اور بھارتی یوٹیوب چینل کی گھٹیا لائیو اسٹریم

ایک خاتون یا لڑکی کے لیے انٹرنیٹ پر موجود رہنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، چاہے بات آن لائن دنیا میں گھٹیا برتاؤ کے سامنے کی ہو یا اخلاق سے گرے ہوئے پیغامات یا تصویریں بھیجنے جانے کی۔ لیکن بھارت میں ایک یوٹیوب چینل نے گھٹیا پن کی تمام سرحدیں پار کر لی ہیں اور عید الفطر کی خوشیاں منانے والی پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کی تصویریں اکٹھی کر کے انہیں لائیو اسٹریم کیا اور اس پر مل کر غلیظ تبصرے کیے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں نے گزشتہ چند روز اپنے اہم ترین تیوہار عید الفطر کی خوشیوں کے ساتھ منائے۔ اس موقع پر سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں بڑی تعداد میں نظر آئیں کہ جن میں لوگوں اپنے خوشی منانے کے انداز پیش کر رہے تھے۔ لیکن اسی دوران ٹوئٹر پر ایک تھریڈ سامنے آیا جس میں ایک ایسی یوٹیوب لائیو اسٹریم کی نشاندہی کی گئی کہ جس میں خاص طور پر پاکستانی لڑکیوں کی ‘عید سیلفی’ اکٹھی کر کے اس پر لوگوں سے رائے طلب کی گئی تھی۔ اس وڈیو کے ڈسکرپشن میں لکھا گیا کہ "آج ہم اپنی ٹھرک بھری آنکھوں سے لڑکیاں تاڑیں گے۔” یعنی یہ آن لائن جنسی ہراسگی کی بدترین قسم!

ایک تو کسی سے پوچھے بغیر اس کی تصویروں کو اٹھانا، پھر ان کے علم میں لائے بغیر انہیں اپنی غلیظ ذہنیت سے تبصروں کا نشانہ بنانا ہی غیر قانونی و غیر اخلاقی ہے لیکن اس وڈیو میں تو لوگ ان لڑکیوں کے جسموں کے بارے میں اپنی رائے دیتے بلکہ انہیں نمبرز دیتے تک دکھائی دیے۔

جس آن لائن صارف نے اپنی ٹوئٹ کے ذریعے اس جانب توجہ دلائی تھی، انہوں نے بتایا کہ "یہ لائیو اسٹریم نہ صرف پاکستانی خواتین کے حوالے سے گھٹیا تبصرے کر رہی تھی، بلکہ جب میں نے نشاندہی کی تو پھر انہوں نے اسٹریمنگ میں میرا ذکر بھی کیا اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا۔ اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے والی اس صارف نے کہا کہ "اس لائیو اسٹریم میں اخلاق سے گرے ہوئے تبصروں کی انتہا ہے اور کئی ایسے بھی ہیں جن میں ان خواتین کا بد ترین انداز میں مذاق اڑایا گیا ہے جبکہ اسٹریم کے میزبان اس پر ہنستے ہی رہے۔”

بعد ازاں، دیگر صارفین نے بھی اس جانب توجہ دلائی تو لائیو اسٹریم کو پرائیوٹ کر دیا گیا لیکن "Liberal Doge” نامی یہ یوٹیوب چینل اب بھی موجود ہے۔

اس وقت اس لائیو اسٹریم کو چلانے والے اور اس میں موجود مختلف افراد کے حوالے سے تحقیقات چل رہی ہے۔ لائیو اسٹریم پر موجود ایک شخص @Keshu_10 کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق وہ بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر جونپور میں رہتا ہے۔ جب جونپور پولیس نے تصدیق کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے تو اس نے اپنا اکاؤ‎نٹ ہی ڈیلیٹ کر دیا۔

چند ٹوئٹر صارفین کے مطابق اس یوٹیوب چینل کا تعلق مشرقی بھارت کی ریاست جھاڑکھنڈ سے ہے۔ یہ بات سامنے آنے پر ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے پولیس سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔

بھارت کے سماجی کارکن ساکت گوکھلے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس وڈیو میں موجود ایک اور شخص کو پہچانا ہے اور بہار پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے گرفتار کیا جائے۔ لیکن اس کے بعد انہیں مارنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔

اس واقعے کے بعد پاکستان میں کئی خواتین خود کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ کچھ نے اپنے اکاؤنٹس پرائیوٹ کر لیے ہیں جبکہ کئی نے اپنی تصویریں ہٹا دی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے