اسرائیل کی پولیس اور یہودی آباد کاروں کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ اور مشرقی القدس کے مسلمان گھرانوں پر حملوں اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال فلسطینی خواتین، ان کی اہمیت اور میدانِ عمل میں مزاحمت اور مظاہروں میں ان کی عملی شرکت کو ظاہر کر رہی ہے۔ انہوں نے ارضِ مقدس کے لیے اپنے گھرانوں اور پیاروں کی قربانی ہی نہیں دی بلکہ صفِ اول میں سینے پر گولیاں کھانے والوں میں شامل ہیں لیکن کوئی طاقت ان کو پیچھے دھکیلنے والی نہیں ہے اور آج بھی ہر میدان پر فلسطینی خواتین ڈٹی ہوئی ہیں اور سوشل میڈیا پر اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے میں ایک نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔
القدس (یروشلم) کی خواتین کا کردار آج نہیں بلکہ ایک صدی پہلے فلسطین پر برطانیہ کے قبضے کے بعد ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ 1925ء میں خواتین کی پہلی نمایاں تحریک وہ تھی جب برطانیہ کے اُس وقت کے بدنام وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے دورۂ القدس اور اس دوران مسجدِ اقصیٰ آمد کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔ تب سے ہی خواتین کی منظم سیاسی سرگرمیاں بڑھتی ہی گئی ہیں۔
1929ء میں انقلابِ براق کے بعد القدس کی خواتین نے شہر میں ‘عرب ویمن یونین سوسائٹی’ قائم کی، جس کی قیادت زلیخہ شہابی نے کی۔
آج مشرقی القدس کی آبادی تقریباً 4,51,584 ہے، یعنی فلسطین کی کُل آبادی کا 9.1 اور صرف مغربی کنارے کا 15.1 فیصد یہاں مقیم ہے۔ یہاں کا صنفی تناسب دیکھیں تو ہر 100 خواتین پر 107.6 مرد ہیں۔
مسجدِ اقصیٰ کے جنوب میں واقع علاقے سلوان میں ‘ویمنز ریولیوشنری سینٹر’ کی ڈائریکٹر عبیر زیاد بتاتی ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں القدس کی خواتین کا کردار بہت نمایاں ہے اور مسجدِ اقصیٰ اور مشرقی القدس کے علاقوں کا تحفظ ان کی ترجیح بلکہ معمول اور ان کے کاموں کا تسلسل ہے۔ وہ اپنی تمام تر گھریلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے باوجود یہ اہم کردار نبھاتی ہیں۔
القدس کی خواتین کو درپیش بڑے چیلنجز کے حوالے سے عبیر زیاد نے کہا کہ یہاں کی خواتین شدید ذہنی دباؤ سے دو چار ہیں، خاص طور پر جن کے بچے ہیں اور وہ جو نظر بند ہیں۔ وہ اور ان کے بچے ذہنی طور پر متاثر ہو رہے ہیں، وہ کام نہیں کر سکتیں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ 1967ء میں القدس پر قبضے کے بعد سے اب تک جن خواتین کے گھر اسرائیل نے تباہ کیے، وہ دہرے عذاب سے دوچار ہیں۔ انہیں بچوں کی دیکھ بھال اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مختلف کردار ادا کرنا پڑ رہے ہیں، وہ بھی اس عالم میں کہ وہ خود بے گھر ہیں اور در بدر کی ٹھوکروں پر مجبور ہیں۔
شہر کی خواتین کے لیے سب سے بڑا چیلنج اسرائیل کی پالیسیاں ہیں، جن کا واضح ہدف ہے انہیں مفلس بنانا اور تعلیم سے محروم کرنا۔ خواتین، خاص طور پر مقدس مقامات کی محافظ ‘مرابطات’ تو اسرائیل کے براہِ راست نشانے پر ہیں، انہیں بارہا گرفتار کیا جاتا ہے۔ ‘مرابطات’ مسجدِ اقصیٰ کی وہ خواتین کارکنان ہیں جو مسجد کو اسرائیلی پولیس اور یہودی آباد کاروں کے حملوں سے بچاتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران مسجد کے دفاع کے لیے ان کے اقدامات کافی معروف ہوئے ہیں اور انہیں مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ خدیجہ خویص اور ہنادی حلوانی کافی مشہور ہوئی ہیں۔
مرابطات کی ایک رکن عائضہ صداوی کہتی ہیں کہ ان کی زندگی مسجدِ اقصیٰ اور اس کے تحفظ کے گرد گھومتی ہے۔ وہ وہاں پانچ وقت نماز پڑھتی ہیں اور رمضان کے مہینے میں اعتکاف کرتی ہیں تاکہ مسجد پر یہودی آباد کار حملے نہ کر سکیں۔
لیکن القدس کی نئی نسل اسرائیل اور یہودی آباد کاروں کے حملوں کے خلاف ذرا مختلف نوعیت کی سیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ مشرقی القدس کے فلسطینیوں کی حالتِ زار سامنے لانے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرتی ہے، جو ان کے لیے ایک کامیاب ذریعہ ثابت ہوا ہے۔
اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے وقت مسکرانے کی وجہ سے مشہور ہونے والی مریم عفیفی نے بتایا کہ انہوں نے شیخ جراح سے مسلمانوں کے اخراج کے منصوبوں کے خلاف مظاہرے میں نہ صرف ایک عام شخص بلکہ ایک عورت کی حیثیت سے بھی حصہ لیا۔ 1948ء میں جو کچھ شیخ جراح میں ہوا، وہ دوبارہ ایسے ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔
مریم عفیفی کے مطابق القدس کے باسیوں کا پیغام دنیا تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اب سوشل میڈیا ہے۔
ایک مقامی صحافی ہنادی قواسمی نے کہا کہ اب القدس شہر میں جدوجہد کے تین مراکز ہیں، بابِ دمشق پر موجودگی کے حق کا دفاع، شیخ جراح میں مسلمانوں کی اپنے گھروں میں موجودگی کے حق کا دفاع اور تیسری مسجدِ اقصیٰ کے تحفظ کی جن۔ ان تینوں میدانوں پر آپ کو القدس کی خواتین ثابت قدم نظر آئیں گی۔
جواب دیں