عریجہ حسیب کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک نو عمر کرکٹر ہیں، جن کی داستان اب اولمپکس کی آفیشل ویب سائٹ تک پہنچ گئی ہے۔
اولمپک چینل نے اپنے دستاویزی سلسلے "Her Rules” کی دوسری قسط میں عریجا کی داستان بیان کی ہے۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح وہ اپنے علاقے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے والی واحد لڑکی سے آگے بڑھتے ہوئے ایک مقامی اکیڈمی کی بہترین کھلاڑی بنیں۔
عریجہ کے مطابق کراچی بلکہ پورے پاکستان میں عموماً لڑکیوں کو گھر سے باہر جانے یا ملازمت کرنے کی ہی اجازت نہیں ہوتی، ایسے میں کرکٹ تو اس سے کہیں زیادہ مشکل تھا۔ اس لیے وہ کھیلنے کے لیے اکثر چھپ چھپا کر نکلتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے سات، آٹھ سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کیا تھا جب گھر کی چھت پر بھائی اور چچا وغیرہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ لیکن میں لڑکوں کو گلی میں کھیلتے دیکھ کر سوچتی تھیں کہ میں چھت پر ہی کیوں کھیلوں؟
بہرحال، انہوں نے گلی میں کھیلنا شروع کیا جہاں کھیلنے والے لڑکوں میں سے ایک کی بہن ربیعہ شاہ پاکستان کی سابق وکٹ کیپر رہ چکی تھیں۔ عریجہ بتاتی ہیں کہ "مجھے ربیعہ باجی ہی نے بتایا کہ لڑکیوں کے لیے بھی کرکٹ اکیڈمیز موجود ہیں۔ میں نے تو کبھی خواتین کو ٹی وی پر کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا تھا، اس لیے میرے لیے تو یہ حیرانگی کی بات تھی۔ بہرحال، میں نے والد سے کہا کہ میں نے بس کرکٹ کھیلنی ہے اور انہوں نے مجھے منع نہیں کیا۔”
عریجہ نے 16 سال کی عمر میں اکیڈمی میں داخلہ لیا اور کچھ ہی عرصے میں اس کی بہترین کھلاڑی بن گئیں۔ والد عریجہ کو دوسری لڑکیوں سے ذرا مختلف قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی دادی مجھے ڈانٹتی رہتی تھیں کہ بچی کو قابو میں کرو، میں یہی کہتا ہے کہ بچی ہے، کھیلنے دیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنی سنجیدہ ہو جائے گی اور قومی ویمنز کرکٹ تک پہنچنے کا سوچے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اکیڈمی بہت دُور تھی اور پھر روزانہ وہاں جانا بھی مشکل۔ امن و امان کے مسائل بھی اپنی جگہ۔ رکشے میں اکیلے بھیج نہیں سکتا تھا۔ جب تک واپس نہیں آتی تھی، پریشانی رہتی تھی لیکن یہ لڑکی اعصابی طور پر مجھ سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔
عریجہ بتاتی ہیں کہ پہلے دن اکیڈمی دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ لڑکیاں باؤلنگ اور بیٹنگ سب کر رہی ہیں۔ بہرحال، ان کا کہنا ہے کہ ٹریننگ بہت مشکل ہوتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ محسوس ہو رہا ہے کہ میرا کھیل پہلے سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔
والد کے مطابق جب عریجہ کو انڈر-17 میں ‘پلیئر آف دی اکیڈمی’ قرار دیا گیا تو میں بہت خوش ہوا اور مجھے امید ہے کہ یہ محنت کرے گی اور بہت آگے جائے گی۔ میں اسے پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں کھیلتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میری اور بھی بیٹیاں ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ خود مختا رہوں۔
عریجہ نے کہا کہ مجھ جیسی جتنی بھی لڑکیاں اس دنیا میں ہیں، اگر ان میں کوئی صلاحیت ہے تو انہیں اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ دل کی بات سن کر آگے نکلنا چاہیے اور اس خوف کو دل سے نکالنا چاہیے کہ "میں یہ کام نہیں کر سکتی۔”
پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ ماہ معین خان اکیڈمی میں ابھرتی ہوئی خواتین کھلاڑیوں کے لیے جو کیمپ منعقد کیا تھا، اس کے لیے طلب کی گئی 27 کھلاڑیوں میں عریجہ کا نام بھی شامل تھا۔ یہ ان کا قومی کرکٹ ٹیم کی جانب سفر کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
Pingback: نگارہ شاہین، افغانستان سے اولمپکس میں مہاجرین کی ٹیم تک پہنچنے کا سفر - دی بلائنڈ سائڈ