پاکستان میں پہلی بار ایک ہندو خاتون نے سینٹرل سپیریئر سروسز (CSS) کا امتحان پاس کر لیا ہے اور یوں ان کا نام پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (PAS) کے لیے تجویز ہو گیا ہے۔
ثنا رام چند ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں جن کا تعلق صوبہ سندھ کے ضلع شکار پور کے قصبے چک سے ہے۔ انہوں نے اسی قصبے سے کالج تک کی تعلیم حاصل کی اور پھر چانڈکا میڈیکل کالج، لاڑکانہ سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد سوِل ہسپتال کراچی میں ہاؤس جاب کی۔ وہ اب سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) سے یورولوجی میں FCPS کر رہی ہیں ۔
ثنا کا نام ان 221 امیدواروں میں شامل ہے کہ جنہوں نے تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس امتحان میں 18,553 امیدواروں نے شرکت کی تھی اور کامیابی کی شرح محض 2 فیصد رہی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں کتنا سخت مقابلہ ہوتا ہے اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے معیارات کتنے سخت ہیں۔ حتمی انتخاب مکمل طبّی، نفسیاتی اور زبانی جانچ کے بعد کیا گیا ہے۔
ثنا کی تین بہنیں اور بھائی کوئی نہیں، وہ کہتی ہیں کہ ہم نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ہم کسی مرد سے کم ہیں۔
گزشتہ ماہ جیکب آباد سے تعلق رکھنے والی منیشا روپیتا سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا تھا اور یوں سندھ پولیس کی پہلی ہندو خاتون ڈی ایس پی بنیں گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے کی پانچویں لڑکی نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔ یہ سب سے چھوٹی بہن ضحیٰ ملک شیر تھیں جنہوں نے 2019ء کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان سے پہلے ان کی بڑی بہن لیلیٰ ملک شیر نے 2008ء میں سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے بعد شیریں ملک شیر، سسی ملک شیر اور ماروی ملک شیر نے کامیابیاں سمیٹیں اور بالآخر ضحیٰ نے بھی یہ کارنامہ کر دکھایا۔ ان کے والد ملک رفیق اعوان نے کہا تھا کہ ہماری ہر بیٹی 500 بیٹوں پر بھاری ہے۔ انہوں نے وہ کارنامہ کر دکھایا ہے جو بیٹے بھی کم ہی کرتے ہیں۔
جواب دیں