کئی عالمی و قومی اعزازات حاصل کرنے والی ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے اپنی نئی شارٹ فلم ‘Women in Media’ ریلیز کر دی ہے۔
یہ اُن کے منصوبے ‘White in the Flag’ کا حصہ ہے جس میں وہ فلموں اور پوڈ کاسٹس کے ذریعے پاکستان کے پسماندہ طبقات کی داستانیں بیان کرنے کا ہدف رکھتی ہیں۔
’Women in Media’ میڈیا سے وابستہ تین تجربہ کار خواتین صحافیوں کی داستان بیان کرتی ہے جنہوں نے صحافت کے اس شعبے میں قدم رکھا اور سخت جدوجہد کا سامنا کیا کہ جسے مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ شارٹ فلم صرف 9 منٹ طویل ہے لیکن اتنے کم وقت میں یہ اس جسمانی، زبانی بلکہ جنسی ہراسگی تک کی بھیانک تصویر کشی کرتی ہے، جس کا سامنا ان خواتین نے کیا ۔
فلم کے آغاز میں اسکرین پر لکھا آتا ہے کہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق پاکستان میں ہر دو میں سے ایک خاتون کو اپنے کام کے دوران صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد تین خواتین صحافیوں کا تعارف کروایا جاتا ہے، فرزانہ علی جو خیبر پختونخوا میں پہلی خاتون بیورو چیف ہیں، پھر تنزیلہ مظہر اور فرحت جاوید کا جو صحافت میں بالترتیب 18 اور 8 سال کا تجربہ رکھتی ہیں۔ جنہوں نے ایک خاتون صحافی کی حیثیت سے درپیش مشکلات کے بارے میں بتایا۔
فرزانہ علی نے بتایا کہ اگر کوئی خاتون صحافت میں آگے بڑھے تو کس طرح ساتھ کام کرنے والے مرد اس پر الزامات لگاتے ہیں کہ اس نے ترقی کے لیے غیر اخلاقی طریقے اپنائے ہیں۔ تنزیلہ مظہر نے جنسی ہراسگی کے بارے میں بات کی، جس کا انہیں خود اپنے باس کے ہاتھوں سامنا کرنا پڑا اور جب انہوں اس پر بات کی تو انہیں اس کی سزا بھی دی گئی۔ فرحت جاوید نے آن لائن دنیا میں خواتین کو درپیش زبانی بد کلامی پر بات کی جن میں انہیں ریپ سے لے کر تیزاب پھینکنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ بتاتی ہیں کہ وہ کس طرح ان دھمکیوں کی عادی ہو گئی ہیں، جو ایک خطرناک رحجان ہے۔
اس فلم کا اختتام ان خواتین کی تصویروں کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنی مرضی کے اس شعبے میں آنے کی وجہ سے قتل یا اغوا کر لی گئیں۔
Pingback: حقوقِ نسواں کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا اصلاحات کا مطالبہ - دی بلائنڈ سائڈ