لاہور میں برطانوی شہری خاتون کے قتل کے بعد پتہ چلا ہے کہ پولیس کو بارہا مطلع کیا گیا تھا لیکن اس نے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا اور ملزمان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
24 سالہ مائرہ ذوالفقار ایک لا گریجویٹ تھیں، جنہوں نے پولیس سے درخواست کی تھی کہ اسے تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ اس کے پیچھے پڑنے والے لڑکے اسے قتل کر دینا چاہتے ہیں۔ لیکن پولیس نے دھیان نہیں دیا اور مائرہ کو مسلسل دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اس کا قتل ہو گیا۔
مغربی لندن سے تعلق رکھنے والی مائرہ نے ایک ملزم سعد امیر بٹ پر الزام لگایا کہ جس نے مائرہ سے کہا تھا کہ وہ اس سے شادی کر لے لیکن انکار پر اس پر جنسی حملہ کرنے کی کوشش کی۔ مائرہ نے اپنے دوستوں کو ظاہر جدون اور سعد بٹ دونوں کے بارے میں بتایا تھا۔
مائرہ کی لاش پیر 3 مئی کو ڈیفنس لاہور میں موجود ایک گھر سے ملی جہاں وہ اپنی سہیلی اقرا کے ساتھ رہتی تھیں۔ اس کو دو گولیاں ماری گئی تھیں، جن میں سے ایک گردن اور ایک بازو پر لگی تھی۔ یہ واقعہ رات 4 بجے پیش آیا تھا، جب مائرہ سحری کے بعد کمرے میں پہنچی ہی تھیں۔ پڑوسیوں کے مطابق انہیں چیخنے اور پھر دو گولیاں فائر ہونے کی آواز آئی۔
پولیس کے مطابق یہ جذبات میں اٹھایا گیا قدم لگتا ہے کیونکہ مائرہ نے مبینہ حملہ آوروں کی شادی کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ مائرہ نے ظاہر جدون کی کچھ نامناسب تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھیں جس کے بعد دونوں میں سخت لڑائی ہوئی تھی۔
مائرہ قتل معاملے میں ایک شخص گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ دوسرے کی تلاش جاری ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ گرفتار کسے کیا گیا ہے، ظاہر کو یا سعد کو؟
پولیس سعد بٹ کو مرکزی ملزم قرار دیتی ہے اور ظاہر جدون کے مائرہ کے ساتھ تعلقات تھے اور اسی نے اسے کرائے کا گھر وہ گھر لے کر دیا تھا جہاں اس کا قتل ہوا۔ پولیس کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعد بٹ مائرہ میں انتہائی دلچسپی رکھتا تھا جبکہ مائرہ کا رحجان ظاہر جدون کی طرف تھا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انہیں بار ہا گھر سے باہر گھومتے پھرتے دیکھا گیا تھا۔
مائرہ ایک شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آئی تھیں، لیکن برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو’ریڈ لسٹ’ میں ڈالنے کی وجہ سے وہ پاکستان ہی میں رہ گئیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق برطانیہ کے اس اقدام کا مطلب تھا کہ پاکستان سے آنے والے کسی بھی مسافر کو 10 دن مقررہ ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑے گا جس کے اخراجات 1750 پونڈز یعنی تقریباً پونے چار لاکھ روپے ہوں گے جو مسافر کو خود ادا کرنا ہوں گے۔ مائرہ نے رشتہ داروں سے بات میں اس لاگت پر تحفظات ظاہر کیے تھے اور کہا تھا کہ وہ اتنی بڑی رقم قرنطینہ پر خرچ نہیں کرنا چاہتیں، اس لیے لاہور میں خاندان کے پاس رہنے ہی کو ترجیح دی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں لاہور میں بہت مزا آ رہا ہے اور بہت سے نئے دوست بنے ہیں۔
ان کے ایک قریبی عزیز محمد نذیر دونوں ملزمان سے آگاہ تھے کیونکہ مائرہ نے ان کو بتایا تھا کہ انہیں شادی سے انکار پر سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ محمد نذیر کے مطابق وہ ان دونوں لڑکوں سے بات چیت کرنا چاہتے تھے کہ پیر کی صبح انہیں لندن سے مائرہ کے والد کی کال آ گئی کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق مائرہ نے مقامی پولیس کو سعد امیر بٹ کے حوالے سے تین مرتبہ شکایات کی تھیں کہ وہ انہیں ہراساں کر رہا ہے۔ خاندان کے مطابق وہ بدمعاش آدمی ہے جس کے پولیس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اس لیے ہراساں کرنے کی شکایات کے باوجود اس کے خلاف کوئی کار روائی نہیں ہوئی۔ لگتا ہے مقامی پولیس خواتین کے خلاف جرائم کو سنجیدہ نہیں لیتی۔
مائرہ کے بھائی فیضان محمد نے کہا ہے کہ مائرہ ان کی واحد بہن تھیں جو صرف 24 سال کی عمر میں انہیں چھوڑ کر چلی گئیں۔ "اس کے سامنے ایک بڑی زندگی پڑی تھی، ابھی دنیا دیکھنی تھی، سامنے بڑے منصوبے تھے اور مستقبل کے خواب بھی، سب دھرے رہ گئے۔ میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ رمضان کے آخری عشرے کے ان مبارک لمحات میں مائرہ کے لیے خصوصی دعا کریں کہ اللہ اس کی مغفرت کرے اور خاندان کو صبر عطا فرمائے۔
جواب دیں