خاتون کا بھیانک قتل، فرانس میں گھریلو تشدد کرنے والے مشتبہ افراد کا اسلحہ ضبط کرنے کا مطالبہ

جنوب مغربی فرانس میں ایک خاتون کے بھیانک قتل کے بعد حقوقِ نسواں کے ادارے Fondation des femmes نے وزارتِ داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کے معاملات میں مشتبہ ملزمان کے ہتھیار فوری طور پر ضبط کروائے۔

منگل کو میریناک نامی قصبے میں ایک 31 سالہ خاتون کے قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی ہے، جس میں ان کے شوہر نے پہلے گولی ماری اور زندہ حالت میں ان پر پٹرول چھڑک کر جسم کو آگ لگا دی۔

یہ رواں سال کے دوران فرانس میں کسی بھی خاتون کے قتل کا 39 واں واقعہ ہے۔ تقریباً ان تمام ہی واقعات میں جرم کا ارتکاب کرنے والے مسلح تھے جبکہ 13 واقعہ میں ملزمان نے آلہ قتل کے طور پر بندوق کا استعمال کیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تازہ واقعے میں ملزم پہلے ہی گھریلو تشدد پر قید کی سزا کاٹ چکا تھا یہی وجہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے سخت غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آخر  اس کی کڑی نگرانی کیوں نہیں کی گئی۔ Fondation des femmes کی صدر این-سیسل میل فرٹ نے وزیرِ داخلہ سے اس معاملے پر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ وزیر جیرالڈ دارمانن کل ہی گھریلو تشدد کے مقدمات میں مشتبہ ملزمان کا اسلحہ ضبط کرنے کا حکم دیں۔

مقتول خاتون کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے قصبے میں تقریباً 400 افراد جمع ہوئے تھے، جس پر میل فرٹ نے کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک خاتون کا قتل لوگوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ خواتین پر تشدد، خاص طور پر گھریلو تشدد، واقعی ایک تشویش ناک امر ہے۔ عوام فرانسیسی حکام اور سیاسی اختیار رکھنے والوں کی اس صورتِ حال پر قابو پانے میں ناکامی پر پریشان ہیں۔ 2020ء میں گھریلو تشدد پر قومی مذاکرے کے بعد تو معاملات کافی بگڑ چکے ہیں اور اب تو صورتِ حال انتہائی گمبھیر ہے۔

میل فرٹ کہتی ہیں کہ اس معاملے میں سب سے بڑی ناکامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے کہ جو مشتبہ افراد کی کڑی نگرانی نہیں کر رہے۔ اس سال قتل کے 39 واقعات میں سے 9 ایسے افراد نے کیے ہیں جو پہلے ہی مشتبہ فہرست میں موجود تھے۔ "یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ایسے شخص کے بعد بندوق کیسے موجود تھی جبکہ وہ پُر تشدد جرائم کی تاریخ رکھتا تھا۔ پھر اسے الیکٹرک بریسلٹ کیوں نہیں پہنایا گیا کہ جس کی مدد سے پولیس کو اس کے محلِ وقوع کا پتہ چلتا رہتا۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک صرف 40 الیکٹرانک بریسلٹ پہنائے گئے ہیں، باوجود اس کے کہ قانون اس کے استعمال کی اجازت دیتا ہے لیکن قاعدے قوانین لاگو نہیں کیے جا رہے۔

میل فرٹ کہتی ہیں کہ ایسے معاملات میں ہتھیار ضبط کرنا سب سے پہلا اور انتہائی ضروری قدم ہے۔ اگر خواتین کی زندگیاں بچانی ہیں تو کڑی نگرانی اور انتہائی سختی کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تمام تر دستیاب قانونی راستے اپنانے چاہئیں۔

One Ping

  1. Pingback: خواتین پر تشدد کے واقعات کو دہشت گردی کی طرح سنجیدہ لیا جائے، پولیس سے مطالبہ - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے