’ریونج پورن’ ایک نسبتاً نئی اصطلاح ہے، جس سے مراد سابق بوائے فرینڈ کی جانب سے معیوب تصاویر یا وڈیوز آن لائن ڈال دینا ہے۔ یہ قبیح حرکت انٹرنیٹ کی اس جدید دنیا میں اب عام ہوتی جا رہی ہے اور 2020ء کی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو اس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس حوالے سے قوانین کافی ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ صرف چند ممالک ہی ایسے ہیں جہاں اس پر سخت پابندی ہے، جن میں اسرائیل، جاپان اور فلپائن شامل ہیں جبکہ دیگر ممالک اسے پرائیویسی پروٹیکشن اور آن لائن جرائم کے زمرے میں لیتے ہیں۔ کی ممالک میں تو ‘ریونج پورن’ کے خلاف باضابطہ قوانین تک موجود نہیں۔
پاکستان نے 2016ء میں حساس تصاویر کے غیر ضروری پھیلاؤ کے خلاف ایک انتہائی بنیادی اور جاندار پالیسی نافذ کی۔ یہ قانون کسی بھی شخص کی مرضی کے بغیر اس کی ایسی وڈیو یا تصویر پھیلانے کے حوالے سے ہے، جس سے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس پر پانچ سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
آن لائن استحصال کا نشانہ بننے والے پاکستانیوں کے لیے کاغذ پر تو یہ قانون بہت مضبوط نظر آتا ہے، لیکن اس ظلم کا نشانہ بننے والی ایک لڑکی کے لیے یہ معاملہ ایک بھیانک خواب ثابت ہوا۔ اس نے جب حکام کو بتایا کہ اس کے ایک سابق بوائے فرینڈ نے اس کی اجازت کے بغیر اس کی وڈیو شائع کی تو اسے گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا، جس کے بعد اس نے دنیا جہاں کی غلیظ ویب سائٹس پر اس کی وڈیو اپ لوڈ کر دی۔ یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ حکام کس طرح معاملات کو مزید خراب کر سکتے ہیں اور ایک قانون بھی کس طرح حالات کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔
جب ماہم (فرضی نام) نے پہلی بار اس لڑکے کو پیغام بھیجا تھا تو یہ 2017ء تھا اور ان کی عمر 16 سال تھی۔ خاندان نے ابھی اسمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن وہ اپنے بھائی کا لیپ ٹاپ استعمال کرتی تھیں۔ تب انہوں نے فیس بک کا استعمال شروع کیا "میرا کسی سوشل ویب سائٹ کا پہلا تجربہ تھا۔ صرف دوستوں اور خاندان کے افراد کو شامل کرنے کی اجازت تھی۔” وہ کبھی فیس بک گروپس میں کچھ شیئر کرتیں اور ان کی پوسٹس عام سی ہوتیں، مثلاً "میرے امتحانات چل رہے ہیں، میرے لیے دعا کریں” جیسی۔ ماہم کو گرافک ڈیزائننگ میں بہت دلچسپی تھی اور وہ اس حوالے سے اپنا کام بھی کبھی کبھی شیئر کرتی تھیں۔
ماہم بتاتی ہیں کہ "تب ایک روز اس نے مجھے ایک پیغام بھیجا، میں سمجھی کہ شاید کسی پروجیکٹ کے لیے کسی نے رابطہ کیا ہوگا۔ لوگ کبھی کبھی اپنی تصویریں ایڈٹ کرنے کے لیے مجھے دیتے تھے۔”
یہ لڑکا ماہم کے شہر لاہور سے کچھ دُور رہتا تھا اور آغاز فیس بک پر چھوٹی موٹی بات سے ہوا۔ ماہم کی مڈل کلاس فیملی پاکستان کی عام گھرانوں کی طرح شادی سے پہلے کسی کے ساتھ جذباتی تعلقات کا حامی نہیں تھا۔ اس لیے کسی لڑکے کے ساتھ آن لائن راز و نیاز کی باتیں محض جذباتی قدم نہیں تھا، بلکہ یہ ایک نافرمانی بھی تھی۔ بتاتی ہیں کہ "جلد ہی صورت حال بدلنے لگی۔ وہ مجھے اپنے کزنز سے ملنے سے روکنے لگا اور کہنے لگا کہ باہر مت جایا کرو، مجھے پسند نہیں۔ پھر اس نے مجھ سے الٹی سیدھی وڈیوز مانگنا شروع کر دیں اور میرے اعتراض پر مجھے جذباتی بلیک میل بھی کرنے لگا، جیسے کہتا کہ "کیا تم مجھ پر بھروسہ نہیں کرتیں؟ تم میرے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں؟” وغیرہ۔ اس نے کہا کہ میں ایک وڈیو بناؤں اور فیس بک میسنجر پر خود ہی کو بھیج کر دیکھ لوں کہ وہ کیسی لگ رہی ہے۔ اس نے کچھ خاص پوز بنانے کو بھی کہا۔” میسنجر میں ڈرافٹ یا فائل اپلوڈنگ کے لیے اپنے آپ کو میسج بھیجنے کا آپشن ہوتا ہے۔
بہرحال، ماہم کو اچھا تو نہیں لگا لیکن وہ اس کی جذباتی بلیک میلنگ میں آ گئی اور سمجھی کہ کیونکہ وہ وڈیو میسنجر پر خود ہی کو بھیجے گی تو کسی کو کیا پتہ چلے گا۔ اس نے وڈیو بنائی، خود کو میسج کیا۔ جس کے بعد اچانک لڑکے کے مطالبات رک گئے اور ایسا لگا کہ اب سب کچھ معمول پر آ گیا ہے۔
یہ دوستی دو سال تک آن لائن رہی اور جب ماہم کو پتہ چلا کہ اس سے بے وفائی کر رہا ہے تو اس نے ناتا توڑ لیا۔ "پہلے تو مایوسی ہوئی لیکن پھر میں نے بال کٹوا لیے۔ کالج کی تیاری شروع کر دی اور میں بہت خوش تھی۔” ماہم اب 18 سال کی تھیں اور آن لائن دنیا میں نو آموز نہیں رہی تھیں۔ انہوں نے اپنا موبائل فون بھی لیا اور مختلف سوشل میڈیا ایپس استعمال کرنا شروع کر دیں۔ اپنا انسٹاگرام پیج بھی بنایا، جہاں وہ اپنا ڈیزائننگ کا کام پیش کرتیں اور کچھ فین بیس بھی بنا لی۔
تب ایک روز اچانک ایک نامعلوم انسٹاگرام پروفائل نے ماہم کو ایک اسکرین ریکارڈنگ بھیجی جس میں ایسی وڈیو تھی جو ماہم نے خود اپنے لیے بنائی تھی۔ یہ وڈیو کسی کے پاس کیسے پہنچ گئی؟ یہ سوچتے ہوئے ماہم کو یاد آیا کہ اس کے سابق بوائے فرینڈ نے ایک مرتبہ اس سے فیس بک پاس ورڈ مانگا تھا اور کیونکہ ماہم نے وڈیو صرف اپنے آپ کو بھیجی تھی، اس لیے اس لڑکے نے لاگ ان ہو کر وہ وڈیو نکال لی ہوگی۔ "اس نے کہا کہ وہ وہی لڑکا ہے۔ اب وہ مجھے بلیک میل کر رہا تھا کہ میں دوبارہ اس کے ساتھ دوستی کروں۔” ماہم نے انکار کر دیا اور لڑکے نے وڈیو ان کی والدہ کو بھیج دی۔
کسی کی معیوب وڈیو اس کے والدین کو بھیجنا ویسے بھی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے لیکن پاکستان میں کہ جہاں غیرت کے نام پر قتل عام ہیں، یہ حرکت کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے خاندان نے ماہم کو اس بدترین صورت حال میں بھرپور سپورٹ کیا۔ ماہم کہتی ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والے بھائی ‘ریونج پورن’ اور اس کے حوالے سے قوانین کے بارے میں جانتے تھے۔ چند ہی دنوں بعد وہ پولیس کے پاس گئیں اور ثبوت پیش کر کے پرچہ کٹوا دیا۔
سال 2016ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے جامع آن لائن قوانین کا پہلا مجموعہ پیش کیا تھا۔ اسی سال جولائی میں ایک وائرل انفلوئنسر قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے بظاہر غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اسمارٹ فون تیزی سے مقبول ہو رہے تھے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنا پہلا اسمارٹ فون لے رہی تھی۔ سستے ڈیٹا پیکیجز کی بدولت جو اب دیہی علاقوں میں بھی دستیاب تھے، انٹرنیٹ اشرافیہ کی گرفت سے نکل کر عوامی بن گیا۔ تب قدامت پسند علاقوں کی خواتین کی وڈیوز وائرل ہونے اور کسی نامعلوم شخص کی جانب سے ان کو ہراساں کرنے کے واقعات کی خبریں بھی سامنے آنے لگیں۔ یہاں تک کہ 2012ء میں کوہستان وڈیو کیس کی صورت میں ایک بڑا واقعہ تک پیش آیا۔
ڈجیٹل رائٹس آرگنائزیشن ‘بولو بھی’ کی شریک بانی اور ڈائریکٹر فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ یہ امر حیران کُن نہیں ہے کہ پاکستان کا پہلا جامع ڈجیٹل قانون خواتین کے تحفظ کی آڑ میں لایا گیا۔ یہ قانون بہت سے معاملات میں استعمال کیا گیا، مثلاً ناپسندیدہ شخصیات، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرانے کے لیے۔
اس قانون کی فوری منظوری کا سبب آن لائن صنفی استحصال تھا، جس پر ‘بولو بھی’ اور دیگر گروپوں نے سخت مخالفت بھی کی کیونکہ اس سے شہری حقوق پر منفی اور دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ فریحہ کے مطابق "انہیں معلوم تھا کہ اس سے وہ زباں بندی کا کام کر سکتے ہیں لیکن سوِل سوسائٹی اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں تک جھانسے میں آ گئیں کہ آخر کار ہمیں قانون کی ضرورت تو ہے ہی۔”
نئے قوانین کی منظوری کے پاکستان میں تقریباً تمام سائبر کرائمز فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی یعنی FIA کے تحت آ گئے۔ یہ ادارہ بارڈر کنٹرول اور وفاقی سطح پر جرائم کی تحقیق کا کام کرتا ہے، مثلاً اسمگلنگ اور دہشت گردی کے معاملات کی۔ لیکن کئی اسکینڈلز اور غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے عام شہریوں میں اس ایجنسی کی ساکھ اچھی نہیں۔
جب سائبر کرائمز کا قانون لاگو ہو گیا تو ایف آئی اے کی ایسے حساس اور آن لائن ہراسگی کے معاملات میں اہلیت پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے۔ فریحہ عزیز کے بقول انہوں نے ایسے کیسز بھی دیکھے کہ جن میں ایجنسی نے شواہد گم کر دیے، تحقیقات میں ناکام رہی، یہاں تک کہ آن لائن کرائم رپورٹ کرنے پر الٹا ان خواتین کو بلیک میل کیا گیا۔ 2020ء میں ایک نو عمر لڑکی نے رپورٹ کیا کہ ایک شخص اس کی معیوب تصویریں آن لائن ڈال رہا ہے تو ملزم کو تو جیل میں ڈال دیا گیا لیکن اس کے دوستوں نے لڑکی کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ ایف آئی اے نے شکایات کو سنجیدہ نہیں لیا اور لڑکی نے خود کشی کر لی۔
دسمبر 2019ء میں جب ماہم ایف آئی اے آفس لاہور آئیں تو انہیں بلکہ پورے خاندان کو یقین تھا کہ جو ثبوت وہ لائی ہیں اس کے نتیجے میں مجرم کی گرفتاری عمل میں آئے گی۔ اور واقعی صرف دو دن بعد وہ پولیس کی تحویل میں تھا لیکن چند روز بعد ہی ایف آئی اے افسر نے خاندان کو ملاقات کے لیے بلا لیا۔ اس دوران ایف آئی اے کے وکیل نے ماہم سے ایک دستاویز پر دستخط کرنے کو کہا۔ وہ بتاتی ہیں کہ "مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ کاغذات کس کے ہیں۔ اس لیے مجھے جو کاغذات بھی دیے گئے، میں ان پر حکم کے مطابق دستخط کرتی رہی۔”
ماہم کی موجودہ وکیل جنت علی کلیار کہتی ہیں کہ ان دستاویزات پر دستخط سے یہ ہوا کہ کیس کی تحقیقات کے دوران ملزم جیل سے باہر آ سکتا ہے۔ ماہم نے کہا کہ "یہ ایک ناقابلِ ضمانت جرم ہے اور اس کے باوجود اسے چور دروازے سے ضمانت دی گئی۔”
یوں مجرم چند ہی دنوں میں پولیس تحویل سے نکل گیا اور پھر ماہم کو ایک نئے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے پیغام ملا۔ اب اس میں وہی وڈیو ایک معروف فحش ویب سائٹ پر موجود نظر آ رہی تھی۔ پہلے توماہم سمجھیں کہ ہو سکتا ہے کسی نے فوٹو شاپ کیا ہو، لیکن جب اس انسٹاگرام اکاؤنٹ کو دیکھا تو لگا کہ یہ اصلی ہے۔ جی کڑا کر کے ماہم نے گوگل سرچ کیا تو پتہ چلا کہ یہ وڈیو ایک، دو نہیں پوری 13 فحش ویب سائٹس پر اپلوڈ کی جا چکی ہے۔ "میں تو کانپنا اور زار و قطار رونا شروع ہو گئی۔ ہزاروں لوگ ان وڈیوز کو دیکھ چکے تھے۔ میں ان وڈیوز کو ہٹوانا چاہتی تھی لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایسا کیسے ہوگا؟”
ان وڈیوز کے ساتھ ماہم ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے کے افسروں کے پاس آئیں لیکن انہیں اندازہ ہو گیا کہ ان کی اتنے ٹیکنیکل معاملے کو سمجھنے کی صلاحیت محدود ہے اور یہ بھی کہ اب یہ وڈیوز ہٹوانے کا کام بھی انہیں خود کرنا پڑے گا۔ پھر اپنے لیپ ٹاپ پر گھنٹوں ایسی ویب سائٹس کی کاپی رائٹس اور پرائیویسی پالیسی پر سر کھپاتی رہیں۔ "میں نے یہ ویب سائٹس کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ ہر ویب سائٹ پرائیویسی پالیسی رکھتی ہے۔ میں نے انہی سے آغاز کیا اور پھر اپنی وڈیوز پر کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کا دعویٰ کر دیا۔”
ماہم نے یہ وڈیو ہٹوا کر ان کے ویب پیجز کے اسکرین شاٹس لیے اور ہر ہر لمحے کو دستاویزی صورت دی، اس امید کے ساتھ اب اس لڑکے کے خلاف کیس مزید مضبوط ہو جائے گا۔ وہ ان دنوں کو اپنی زندگی کے بدترین ایام کہتی ہیں، جب انہیں اپنی ہی معیوب وڈیوز کو آن لائن دیکھنے پر گھنٹے لگانے پڑتے۔ "میں پاگل ہو گئی تھی۔ سڑک پر چلتی تو یہ سوچتی کہ یہ ارد گرد موجود لوگ میری وڈیو دیکھ چکے ہوں گے اور وہ سب میری ہی طرف دیکھ رہے ہیں۔”
لیکن اس پوری جدوجہد میں ایف آئی اے نے ماہم کا ساتھ نہیں دیا۔ جن افسران کو ان کا کیس سونپا گیا، وہ نہ صرف ان فحش ویب سائٹس سے یہ مواد ہٹوانے میں ناکام رہے بلکہ جب ماہم نے اپنے بل بوتے پر یہ کام کر لیا تو ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ وڈیوز موجود ہی نہیں تو وہ مجرم کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کر سکتی۔
وکیل جنت علی کہتی ہیں کہ یہ دراصل یہ قانون کی درست تفہیم نہیں ہے، لیکن ایف آئی اے کی مدد کے بغیر ماہم کے بعد اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنی ایسی وڈیوز کو ہٹوانے کے لیے خود کچھ کرے۔
سخت غصے کے عالم میں وہ ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے آفس آئیں، انہیں امید تھی کہ مجرم کے خلاف مقدمے کا کوئی متبادل راستہ ملے گا۔ جب وہ ایک میٹنگ روم میں افسران کے ساتھ موجود تھیں تو ماہم نے اپنے بھائی کو ایک واٹس ایپ پیغام بھیجا جس پر وہ افسران تپ گئے۔ انہوں نے نہ صرف فون زبردستی لیا بلکہ ضبط بھی رک لیا۔ ایک افسر نے کہا کہ آپ لوگوں کے خلاف پرچہ کٹوائیں گے۔ جنت کہتی ہیں کہ "ہم ریاست کے راز فاش نہیں کر رہے تھے بلکہ اسی کیس کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔”
فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ ایسے مقدمات میں حکام کی جانب سے ہراساں کرنا اور معاملہ آگے نہ بڑھانا عام ہے۔ دراصل اس قانون کا مقصد خواتین کو تحفظ دینا تھا ہی نہیں۔ گزشتہ پانچ سال میں تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون مستقبل میں بھی ہونے والے جرائم کو نہیں روک سکتا اور نہ اس کی شکار خواتین کو کمدد دے سکتا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے ‘ریونج پورن’ کے مقدمات کو ایک ایسے وقت میں مس ہینڈل کیا جا رہا ہے جب ملک میں صنفی بنیاد پر آن لائن جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ ڈجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نامی ادارے کی ہاٹ لائن ‘سائبر ہیراسمنٹ ہیلپ لائن’ کے مطابق گزشتہ سال کووِڈ-19 لاک ڈاؤن لگنے کے بعد صرف دو ماہ میں سائبر ہراسگی کی شکایات میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ان میں سے زیادہ تر کیس یہی ‘ریونج پورن’ اور بلیک میلنگ کے تھے۔ ایجنسی کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ایف آئی اے نے 2016ء کے بعد سے ملنے والی 1,35,000 سے زیادہ شکایات میں سے صرف 616 کا معاملہ ہی "حل” کیا ہے۔
فریحہ پوچھتی ہیں کہ "جب ہونا کچھ نہیں تو ایسا قانون متعارف کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے ایک جعلی امید قائم ہو رہی ہے اور لوگ اس جال میں مزید پھنس رہے ہیں۔ انہوں نے آن لائن استحصال پر مقدمات کروانے والی خواتین کو درپیش چند مسائل کی نشاندہی بھی کی، مثلاً ذہنی صحت کے مسائل، مالی و پیشہ ورانہ نقصان اور سماجی دباؤ، اور یہ سب ایسے وقت میں جب مجرم کے کٹہرے میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ "یہ صرف ایک واقعہ ہے جو شکایت درج کروانے کی صورت میں ابھرنے والے کئی مسائل کو ظاہر کرتا ہے۔”
ماہم کا سابق بوائے فرینڈ اب بھی دندناتا پھر رہا ہے اور ایک سیدھے سادے مقدمے میں انہیں جو کچھ سہنا پڑا، وہ اب سب کے سامنے ہیں۔ آج بھی وہ پورن ویب سائٹس پر جا کر دیکھتی ہیں کہ کہیں کسی نے دوبارہ ان کی وڈیو تو نہیں ڈال دی۔ وہ کسی سرکاری ادارے کی مدد کے بغیر زیادہ تر کام خود کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "مجرموں نے یہ قانون بنائے، اپنے جیسے مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے۔ ان قوانین کا مقصد عورتوں کو تحفظ دینا ہے ہی نہیں۔”
Pingback: پاکستان، ریپ کے خلاف نئے قوانین منظور ہو گئے - دی بلائنڈ سائڈ