خواتین جمناسٹ بہت عرصے سے اس کھیل میں leotards کا استعمال کر رہی ہیں، ایسا مختصر لباس جسے اب بین الاقوامی مقابلوں میں معیار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی کھلاڑی مذہبی وجوہات کی بنا پر پورا جسم ڈھانپنا چاہتی ہو تو اسے اس کی اجازت ہے۔
لیکن گزشتہ ہفتے یورپی چیمپئن شپ میں شریک تین جرمن کھلاڑیوں نے مکمل جسم ڈھانپنے والا لباس unitard پہن کر حصہ لیا، اور ایسا انہوں نے مذہبی وجوہات کی بنا پر نہیں کیا کہ بلکہ وہ کھلاڑیوں کو جنسی روپ میں پیش کرنے کی روایت کا خاتمہ چاہتی ہیں۔
ان تین کھلاڑیوں میں سے ایک ایلزبتھ سائٹز تھیں، جن کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اب نہ صرف جمناسٹ بلکہ دیگر کھلاڑی بھی اس سمت میں قدم آگے بڑھائیں گی اور جولائی و اگست میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں اپنا جسم ڈھانپ کر شریک ہوں گی۔ "مجھے بہت اچھا لگے گا اگر مزید کھلاڑی unitards پہن کر شریک ہوں، صرف جمناسٹکس ہی میں نہیں بلکہ ہر کھیل میں خواتین کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہن کر کھیلیں۔”
سائٹز 2012ء اور 2016ء کے اولمپکس میں حصہ لے چکی ہیں اور 2018ء کی ورلڈ چیمپئن شپس میں "اَن اِیون بارز” میں کانسی کا تمغہ بھی جیت چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "کھیلوں کی گورننگ باڈیز کو اپنی تمام خواتین کھلاڑیوں کو بتانا چاہیے کہ اس کا فیصلہ وہ خود کریں کہ وہ کیا پہن کر شریک ہونا چاہتی ہیں۔”
کرونا وائرس کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر کا شکار ہونے والے ٹوکیو اولمپکس کو ویسے بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کچھ اچھی خبروں کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں خواتین کے حوالے سے غلط بیان دینے پر گیمز کے سربراہ کو استعفیٰ تک دینا پڑا ہے۔
جمناسٹکس کا کھیل ویسے ہی گزشتہ کچھ عرصے میں کافی بدنام ہو چکا ہے۔ امریکا میں یو ایس اے جمناسٹکس کے ایک ڈاکٹر لیری نیسر کو سینکڑوں نو عمر جمناسٹ لڑکیوں کا جنسی استحصال کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ ان میں اولمپک چیمپئن سائمن بائلز بھی شامل تھیں۔
اس کھیل کے قوانین میں ایسا کچھ نہیں جو خواتین کو مکمل جسم ڈھانپنے والے لباس پہننے سے روکے لیکن leotard دہائیوں سے اس کھیل میں رائج ہے کہ جس میں ٹانگیں مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔ کھیل کی عالمی گورننگ باڈی FIG کا کہنا ہے کہ اسے خوشی ہے کہ خواتین کھلاڑی اپنی مرضی کا لباس منتخب کر سکتی ہیں، جس میں وہ خود کو مطمئن محسوس کریں۔
یعنی ٹوکیو اولمپکس میں unitards مکمل طور پر قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے مطابق انٹرنیشنل فیڈریشنز اپنے متعلقہ کھیل کے حوالے سے قواعد بنانے اور ان کے اطلاق کی خود ذمہ دار ہیں۔ ان میں لباس کے قوانین بھی شامل ہیں۔
جمناسٹ کافی عرصے سے اس مختصر لباس کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں، جو چند مقابلوں میں ٹانگیں چیرنے اور چھلانگ لگانے کے دوران پھٹ بھی سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھلاڑی ذہنی اطمینان چاہتی ہیں جس کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں ہونے والی یورپی چیمپئن شپ میں سائٹز، سارا ووس اور کم بوئی نے نیا لباس پہننے کو ترجیح دی۔
اس میں پہلا قدم ووس نے اٹھایا اور پھر باقی دونوں کھلاڑیوں نے آل اراؤنڈ فائنل میں اس لباس کے ساتھ شرکت کی۔ سائٹز نے کہا کہ "ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سب ویسا ہی لباس پہنیں جیسا ہم چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ پیغام دینا ہے کہ جو آپ پہننا چاہتی ہیں، آپ کو اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ میں نے خود فیصلہ کیا کہ میں نے کیا پہننا ہے اور باقی تمام کھلاڑیوں کو بھی یہ فیصلہ خود کرنا چاہیے۔”
یہ بات محض جرمن کھلاڑیوں تک محدود نہیں رہی۔ جمیکا کی معروف جمناسٹ دانوسیا فرانسس نے بھی کہا ہے کہ وہ خواتین کھلاڑیوں کو "اپنی پسند کا لباس پہننے کا اختیار دینے کے حق میں ہیں۔”
دوسری جانب برطانیہ کی مشہور کھلاڑیوں نے بھی اس حوالے سے کہا ہے کہ اب کھلاڑیوں کو "جنسی طور پر ہیجان خیز” لباس پہننے کے بجائے اپنی مرضی کے لباس میں شرکت کی راہ ہموار ہوگی۔ کیونکہ کھلاڑی کا دھیان اپنی کارکردگی پر ہونا چاہیے، اس پر نہیں کہ وہ کیسی لگ رہی ہے۔
کسی اولمپک کھیل میں جسم کو مکمل طور پر ڈھانپ کر کھیلنے کا معاملہ جس کھیل میں سب سے پیچیدہ رہا ہے، وہ تیراکی ہے۔ 2009ء میں روم میں ہونے والی ورلڈ چیمپئن شپ میں اچانک تمام شریک کھلاڑی، مرد اور خواتین دونوں، مکمل باڈی سوٹ میں نظر آئے۔ ان کا مقصد جسم کو ڈھانپنا نہیں بلکہ اپنی رفتار بڑھانا تھا۔ مکمل باڈی سوٹ کھلاڑیوں کو پانی میں تیزی سے تیرنے کی سہولت دیتے ہیں۔ جس پر گورننگ باڈی نے اس لباس پر پابندی عائد کر دی کیونکہ عالمی ریکارڈز بہت تیزی سے ٹوٹنے لگے تھے۔ اب کوئی خاتون تیراک ایسا لباس نہیں پہن سکتی، جو اس کے کندھے سے آگے آئے یا گھٹنے سے نیچے جائے۔
لیکن جمناسٹکس میں جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنے والا لباس کیا کارکردگی میں بہتری کا سبب بنے گا یا اس میں رکاوٹ پیدا کرے گا؟
Pingback: اولمپکس، ہیجان خیز لباس کے خلاف جرمن کھلاڑیوں کا انوکھا احتجاج - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: اولمپکس مقابلہ حُسن نہیں، خواتین کو اپنی مرضی کے لباس کا حق دیں - دی بلائنڈ سائڈ