کم عمری میں بیاہی گئی اور اپنے شوہروں کے تشدد کا نشانہ بنتی لڑکیاں گھریلو تشدد کے حوالے سے بھارت کے سب سے بڑے سروے میں شامل نہیں کی جاتیں، جس کی وجہ سے ایک بڑا اور گمبھیر مسئلہ منظرِ عام سے غائب ہے اور ایسی مظلوم لڑکیوں کی مدد کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
بھارت کا نیشنل ہیلتھ سروے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے، جس میں موجود اہم سماجی اشاریوں کی مدد سے حکومت پالیسیاں ترتیب دیتی ہے جبکہ خیراتی ادارے اس لحاظ سے اپنی کوششوں کا دائرہ پھیلاتے ہیں۔
لیکن کم عمر دلہنیں، جنہیں 18 سال کی قانونی عمر سے پہلے بیاہ دیا گیا، تازہ ترین سروے سے باہر ہیں، اس کے باوجود کہ گزشتہ رپورٹ کے مطابق 15 سے 19 سال کی عمر میں بیاہی گئی ہر چھ میں سے ایک لڑکی کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غیر سرکاری انجمن پاپولیشن کونسل کے سینئر ایسوسی ایٹ کے جے سنتھیا کہتے ہیں کہ تحقیق نے ظاہر کیا کہ ان میں سے کئی کو شادی کے پہلے ہی سال تشدد کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اب ان کی داستان سامنے نہیں آئے گی۔ اقدامات تبھی اٹھائے جاتے ہیں جب معاملات سامنے آتے ہیں۔ اب اس تشدد کا سامنا کرنے کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ 15 سال سے کم عمر میں شادی گھریلو غلامی، شوہر کے ہاتھوں تشدد اور خراب صحت کے خطرات میں اضافہ کرتی ہے ، 50 فیصد سے زیادہ کو اپنے شوہر کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بچوں کے عالمی ادارے یونی سیف کے مطابق بھارت دنیا کی کُل بالغ آبادی کا 20 فیصد رکھتا ہے اور جنوبی ایشیا میں بچپن کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان بھی یہیں پر ہے۔
بھارت نے 2005-06ء کے نیشنل ہیلتھ سروے میں پہلی بار گھریلو استحصال کے حوالے سے سوالات پوچھنے کا آغاز کیا، جب ملک میں گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون منظور ہوا تھا۔
تب سے یہ تحقیق خواتین پر تشدد کی مختلف اقسام پر روشنی ڈال رہی ہے، اور ظاہر کرتی ہے کہ بہت کم خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کے بعد تھانوں کا رخ کرتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب 18 سال سے کم عمر افراد کو اس سروے سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ یہ بھارت کے چائلڈ پروٹیکشن قوانین 2012ء سے متصادم ہیں، جو مطالبہ کرتا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال کے تمام واقعات پولیس کو بتانا ضروری ہیں۔
سروے کرنے والے چند دنوں میں نجی سطح پر انٹرویوز لیتے ہیں۔ آخری سروے پر خواتین اور لڑکیوں سے پوچھا جاتا تھا کیا انہیں کبھی ان کے شوہروں نے تھپڑ، گھونسا یا لات ماری ہے یا کبھی جنسی عمل میں زبردستی کی ہے۔
یہ سروے کرنے والے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے پروفیسر ایس کے سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا کہ چائلڈ پروٹیکشن کے قوانین کی وجہ سے 18 سال سے کم عمر افراد کے انٹرویوز بند کر دیں۔ "ہم پابند ہیں کہ جو معلومات ہمیں ملتی ہے ہم اس کو خفیہ رکھیں اور کسی کے سامنے پیش نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گو مگو کی کیفیت سے دوچار تھے۔ بہرحال، تو ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ہم 18 سال سے زیادہ عمر پر ہی توجہ رکھیں تو اس قانون کے تحت اپنے سروے میں شامل افراد کی رازداری برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔”
حقوق انساں اور حقوق نسواں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ 15 سے 18 سال کی لڑکیوں کو گھریلو تشدد کے سروے سے نکالنا اعداد و شمار کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ "اب اعداد و شمار گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی ظاہر کر رہے ہیں اور یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انتہائی مظلوم طبقہ ایسا ہے جس سے اب اس حوالے سے سوال بھی نہیں پوچھا جا رہا۔” پدما دیوستھالی نے کہا جو صحت کے حقوق کی کارکن ہیں۔
20 میں سے جن 14 ریاستوں کی سروے رپورٹ جاری ہو چکی ہے ان میں گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی سامنے آئی ہے۔
کم عمری کی زیادہ تر شادیاں دیہی علاقوں میں ہوتی ہیں کہ جہاں سسرال میں زبانی یا جسمانی تشدد کو نافرمانی کا ردعمل سمجھا جاتا ہے۔
صرف 14 فیصد خواتین ہی گھریلو تشدد پر پولیس کی مدد مانگتی ہیں اور ان میں سے 3 فیصد ایسی ہیں جو تھانے تک بھی آتی ہیں۔
راجستھان میں خواتین کے حقوق کی انجمن مہیلا جان ادھیکار سمیتی کی بانی اندرا پنچولی کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹا کو نکالنا ایک بڑی غلطی ہے۔ اب لڑکیوں کی کوئی آواز نہیں ہے۔
جواب دیں