یہ وبا خواتین کے لیے محض خطرناک ہی نہیں، مہلک بھی ہے۔ فروری میں امریکی شہر ڈیلاس میں خاتون اور ان کی والدہ کو مبینہ طور پر ایک عاشق نے گولی مار کر قتل کر دیا اور پھر خود کشی سے پہلے انسٹاگرام پر اپنا معذرت نامہ براہِ راست نشر کیا۔ پھر مارچ میں منی سوٹا میں ایک نرس کو اس کے سابق بوائے فرینڈ نے قتل کر دیا اور اپریل میں بروکلن میں ایک 9 سالہ بچی نے 911 پر کال کی کہ ان کے والد نے والدہ اور اس کی دو بہنوں کو برتھ ڈے پارٹی کے دوران قتل کر دیا ہے۔ امریکا میں ابتدائی ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ اپنی بیویوں یا گرل فرینڈز کو قتل کرنے والے مردوں کی تعداد چند علاقوں میں دو گنی ہو گئی ہے جبکہ پولیس اور دیگر اداروں کو رپورٹ ہونے والے گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
ایسا صرف امریکا میں ہی نہیں ہو رہا۔ کڑوی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں مردوں جن خواتین سے محبت کے دعوے کرتے ہیں، انہی کو قتل کر رہے ہیں اور یہ واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی مارچ میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق میں خواتین کو تشدد کی جس سب سے عام قسم کا سامنا ہے اس کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ اور یہ تشدد کسی اندھیری گلی میں موجود کوئی قاتل نہیں کر رہا، بلکہ ان مردوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے، جنہیں خواتین جانتی ہیں اور ممکنہ طور پر ان کے ساتھ رہتی بھی ہیں۔
گزشتہ سال وبا کے آغاز کے بعد لگنے والے لاک ڈاؤنز سے سے دنیا بھر میں خواتین کے قتل کی وارداتیں بڑھنے لگیں، میکسیکو سے جنوبی افریقہ اور برطانیہ تک۔ چین کے صوبہ ہوبی میں گھریلو تشدد کی وارداتوں میں 300 فیصد اضافہ ہوا، یہ وہی صوبہ ہے کہ جہاں سے کرونا وائرس کی وبا پھوٹی تھی۔
کینیڈین صوبہ کیوبیک میں خواتین کے قتل کے واقعات اتنے بڑھے کہ وزیر اعلیٰ نے مردوں سے براہِ راست خطاب کیا اور کہا کہ "خواتین پر تشدد میں مردانگی نہیں ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ 2021ء میں بھی ہم وحشیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔
دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل پر ہونے والی سرچ، جو ممکنہ طور پر خواتین کی جانب سے لگتی ہیں مثلاً "وہ مجھے قتل کر دے گا” یا "وہ مجھے ہر وقت مارتا رہتا ہے” پر لاکھوں نتائج ملتے ہیں، لیکن ان کو تلاش کرنے والی خواتین کو گھریلو تشدد کے اداروں یا ہاٹ لائنز کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں ملتا۔ خواتین مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔ گوگل سن تو رہا ہے لیکن کیا وہ مدد کر رہا ہے؟
اگر کوئی خود کشی کے حوالے سے کچھ سرچ کرتا ہے تو گوگل نتائج میں اس انٹرنیٹ صارف کو ایسے لنک دکھاتا ہے جو اسے خود سوزی روکنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ایسا گھریلو تشدد کے حوالے سے کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ جبکہ لاکھوں خواتین مدد کے لیے گوگل کا رخ کرتی ہیں۔
اس کے برعکس اگر آپ گوگل پر یہ سرچ کریں کہ "عورت کو کس طرح قابو کیا جائے” تو سرچ انجن آپ کو کئی ایسی تحاریر دکھائے گا جو مردوں کو خواتین کے جسمانی استحصال کے بارے میں ہدایات دیتی ہیں۔ انگریزی میں "how to control your woman” سرچ کریں تو جو ابتدائی لنک آتے ہیں ان میں سے ایک بلاگ پوسٹ ایسی بھی ہے جو مردوں کو سمجھاتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی عورت کے پہننے اوڑھنے، سفر کرنے، کھانے پینے یہاں تک کہ پیسے خرچ کرنے کی آزادی کو بھی کس طرح محدود کر سکتے ہیں۔ یہ سب "coercive control” کی اقسام ہیں کہ جسے حال ہی میں امریکی ریاست ہوائی میں گھریلو تشدد کی ایک مجرمانہ قسم قرار دیا گیا ہے اور ایسے ہی قوانین نیو یارک اور کنیکٹی کٹ کی ریاستوں میں بھی لاگو ہیں۔
خواتین پر ظلم کرنے سے باز آنے کے بجائے مرد انٹرنیٹ صارفین خود کو victim سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ سرچ کے نتائج میں ٹاپ پر آنے والی ایک تحریر کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے "سیدھی بات کہوں گا کہ آپ یہ تحریر اس لیے پڑھ رہے ہیں کیونکہ آپ رن مریدی سے تنگ آ گئے ہیں۔”
یہی نہیں بلکہ جب کوئی اس طرح کی گوگل سرچ کرتا ہے تو اسے گوگل خود بھی ملتے جلتے نتائج تجویز کرتا ہے، مثلاً "how to control a woman emotionally” اور "how to manipulate your girlfriend” ۔ پھر "how to manipulate your girlfriend” کے تحت جو پہلی وڈیو تجویز کی جاتی ہے وہ ایک زن بیزار (misogynistic) مرد کی بدلہ لینے کا خیال ہے جو اپنی گرل فرینڈ کے ہر قدم اور رویّے کو ریموٹ کنٹرول سے چلاتا ہے۔
ایک تنظیم ‘اے کال ٹو مین’ کے بانی ٹیڈ بنچ کہتے ہیں کہ "جب کوئی ایسی چیز سرچ کرتا ہے جس میں مرد کی جانب سے کسی عورت کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی بات ہو تو ضرورت ہے فوری طور پر ردعمل دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔” ان کی تنظیم دنیا بھر میں مردوں اور لڑکوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔ بنچ سمجھتے ہیں کہ آن لائن سرچ میں مداخلت مردوں کو شعور دے سکتی ہے بجائے اس کے کہ ان کو اپنے رویّے میں مزید سخت کرے۔ یوں خواتین کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
محض ٹیکنالوجی کمپنیاں ہی نہیں ہیں کہ جنہیں خواتین کے مردوں کے ہاتھوں استحصال کا فائدہ اٹھانا بند کرنا ہوگا۔ بلکہ تمام مردوں، منتخب سیاست دان، اداروں کے مالکان، والدین، مذہبی و مقامی رہنماؤں، سب کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں اثر انداز ہو سکتے ہیں اور اپنے اثر و رسوخ کو مردوں کی بہبود اور خواتین کو بچانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ مردوں کی اکثریت پُر تشدد رویہ نہیں رکھتی لیکن جب معاملہ گھریلو تشدد، جنسی حملے، جنسی ہراسگی وغیرہ کا ہو تو ان میں سے بیشتر خاموشی کا رویہ ضرور اختیار کرتے ہیں۔ یہ خاموشی اتنا ہی بڑا مسئلہ ہے جتنا کہ خواتین پر تشدد ہے۔
برطانیہ میں گزشتہ ماہ سارا ایڈورڈ کے قتل کے بعد #NotAllMen ٹرینڈ کرتا رہا۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ اگر مرد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مسئلہ نہیں ہیں تو یہ وقت ہے کہ وہ خود کو مسئلے کا حصہ بنائیں۔ گوگل اور وائٹ ہاؤس میں جو مرد ہیں، وہ آگے قدم بڑھائیں تو سب سے بہتر ہے۔
Pingback: سوئیڈش سفارت خانہ اور یو این ویمن پاکستان کے تحت صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف عالمی مہم کا آغاز - دی بلائنڈ سائڈ