زینب عباس پاکستان کرکٹ کا چہرہ ہیں، ایک ایسے ماحول اور شعبے میں جہاں مردوں کا غلبہ رہتا ہے، وہ ایک حاضر دماغ اور پر کشش پریزینٹر ہیں اور سوشل میڈیا پر 34 لاکھ فالوورز بھی رکھتی ہیں۔ اب وہ برطانیہ میں ہونے والی متنازع کرکٹ لیگ ‘دی ہنڈریڈ’ کا حصہ بننے جا رہی ہیں کہ جس کے 240 مرد اور خواتین کھلاڑیوں میں سے صرف ان کے ہم وطن محمد عامر اور ڈیوڈ وارنر کی فالووِنگ ہی زینب سے زیادہ ہے۔
برطانوی ٹیلی وژن اسکائی اسپورٹس پر زینب عباس ایک نیا چہرہ ہو سکتی ہیں، لیکن جو پاکستان سپر لیگ یا پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کو دیکھتے ہیں، وہ زینب سے اچھی طرح واقف ہیں۔ زینب برطانیہ میں پلی بڑھیں اور یہیں تعلیم حاصل کی اس لیے وہ ‘دی ہنڈریڈ’ کے حوالے سے خاصی پُر جوش نظر آتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ "برطانیہ ایک کثیر ثقافتی مقام ہے۔ جب بھارت اور پاکستان انگلینڈ میں کھیلتے ہیں تو آپ کو یہاں کی ایشیائی کمیونٹی کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔”
33 سالہ زینب عباس کرکٹ کے پرستاروں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ جب جولائی میں ‘دی ہنڈریڈ’ کا آغاز ہو تو کھلے دل اور ذہن کے ساتھ اس کا خیر مقدم کریں۔ "یہ ذرا مختلف فارمیٹ ہے۔ اس میں ایک اننگز 100 گیندوں پر مشتمل ہوگی، جس میں ہر باؤلر زیادہ سے زیادہ 20 گیندیں پھینک سکے گا اور پاور پلے 25 گیندوں کا ہوگا۔ پھر اس میں اصطلاحات بھی ذرا مختلف استعمال ہوں گی، اس لیے مجھ جیسے نشریات کاروں کو بھی احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ہوگا کہ کہیں روایتی اصلاحات نہ استعمال کر بیٹھیں۔”
زینب عباس اسی مہینے پاکستان کے دورۂ انگلینڈ میں اسکائی اسپورٹس کی کوریج کا حصہ بھی ہوں گی۔ اپنے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میرے والد ناصر عباس ایک فرسٹ کلاس کرکٹر تھے اور رمیز راجا کے ساتھ پڑھتے تھے۔ میری والدہ عندلیب عباس ایک سیاست دان ہیں، جنہوں نے صحافی کی حیثیت سے کرکٹ کوَر کیا تھا کہ جن میں ورلڈ کپ 1999ء بھی شامل ہے۔ یہ ان کا کُل وقتی کام نہیں تھا، بس کچھ میچز کی کوریج انہوں نے دی۔ تو کہہ سکتے ہیں کہ کرکٹ میرے خون میں رچی بسی تھی۔ اب میرے شوہر حمزہ کاردار ہیں جو پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان عبد الحفیظ کاردار کے پوتے ہیں۔ تو ہمارا گھرانہ کھیل کا دیوانہ تھا، فٹ بال اور ٹینس کا بھی، لیکن میں نے پاکستان کے سب سے بڑے کھیل کرکٹ کا رخ کیا۔”
برمنگھم کی آسٹن یونیورسٹی میں پڑھنے والی اور واروِک سے مارکیٹنگ اینڈ اسٹریٹجی میں ماسٹرز مکمل کرنے والی زینب عباس نے دو سال ہیرڈز میں Dolce & Gabbana کے لیے کام کیا۔ لندن کے قیام کے دوران ہی انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کے فائنل میں پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بنتے دیکھا۔
ورلڈ کپ 2015ء میں ‘دنیا نیوز’ نے اپنے کرکٹ شو کے لیے زینب عباس کو منتخب کیا اور پھر انہوں نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا، پاکستان سپر لیگ، ابو ظہبی ٹی 10 اور پاکستان کی اندرون و بیرونِ ملک سیریز، یہاں تک کہ ورلڈ کپ 2019ء کے دوران آئی سی سی کے لیے رپورٹر بھی۔ زینب کہتی ہیں کہ "کسی بھی کام کی طرح آغاز آسان نہیں تھا اور خاص طور پر ایسے کھیل میں کہ جہاں مردوں کا اتنا غلبہ ہو۔ بہرحال، سات سال میں عورتوں کی قبولیت کی شرح بڑھی ہیں، اب آپ کو کہیں زیادہ خواتین نظر آئیں گی۔”
زینب عباس نے کہا کہ "میں نے کام کا آغاز سعید اجمل اور عمران نذیر کے ساتھ کیا اور اس میں کامیابی اور اپنے باس کی حوصلہ افزائی کے بعد میں کام کرتی رہی۔ 100 میں سے 20 لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو حوصلہ شکنی کرتے ہیں، اتنا تو میں برداشت کر ہی سکتی ہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری چمڑی موٹی ہوتی گئی یعنی میں عادی ہو گئی۔ منفی رویّے کو نظر انداز کرنا سیکھ لیا۔ آج اس مقام پر اس لیے ہوں کیونکہ میں نے اپنی توجہ منزل پر برقرار رکھی۔ مجھے فلموں کی اور ماڈلنگ کی پیشکش بھی ہوئی لیکن میری اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کرکٹ سے جو محبت ہے وہ آگے بڑھاتی رہی اور آج اس مقام پر لے آئی ہے۔”
وہ کہتی ہیں کہ "میں سوشل میڈیا پر آنے والے تمام جوابات نہیں پڑھتی۔ اب اپنے لباس، اپنی صورت اور کھیل کے حوالے سے معلومات سب پر تبصروں کی عادت ہو گئی ہے۔ کبھی کبھی جواب بھی دے دیتی ہوں لیکن عموماً میں نظر انداز کرتی ہوں۔”
جواب دیں