مصر کی پارلیمنٹ نے ایک ایسے قانونی مسودے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت عورتوں کے ختنے (FGM) پر سزا بڑھا کر 10 سال تک کر دی گئی ہے۔
مارچ میں مصر کے ایوانِ نمائندگان نے اس سرکاری بل کی منظوری دی تھی، جسے بعد ازاں نظر ثانی کے لیے ریاستی کونسل کے محکمہ قانون سازی میں بھیجا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونی سیف) کے 2016ء کے سروے کے مطابق مصر میں 15 سے 49 سال کی 90 فیصد خواتین اور لڑکیاں FGM کی شکار ہو چکی ہیں اور پابندی کے باوجود مسلمان اور مسیحیوں دونوں میں یہ عمل بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
اس قانون کی منظوری اہم ترین اسلامی ادارے جامعہ الازہر نے بھی دی ہے، جس میں 7 سال قید کی موجودہ سزا کو بڑھا کر 10 سال کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس عمل میں ملوث ڈاکٹر اور طبی عملے پر پانچ سال تک کی پابندی اور طبی ادارے کی بندش جیسے اقدامات شامل ہیں۔
پانچ اور 10 سال قید کی سزا کا انحصار اس فعل میں کردار کی بنیاد اور اس امر پر ہوگا کہ اس سے مستقل نقصان یا موت تو واقع نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ قانون کے مطابق FGM کی درخواست کرنے والے فرد کو بھی 10 سال قید تک کی سزا کا سامنا ہوگا، جس کی منظوری صدر دیں گے۔
عورتوں کے ختنے (FGM) میں عموماً بیرونی اعضائے تناسل کا جزوی کا مکمل طور پر خاتمہ شامل ہوتا ہے۔ اس سے ذہنی و جسمانی صحت کے عارضی یا مستقل مسائل کو جنم دیتے ہیں، جن میں مستقل انفیکشن، بانجھ پن اور بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں تک شامل ہیں۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ حکومت نے FGM پر پابندی کے قوانین میں ترامیم کی ہیں۔ پانچ سال پہلے اس قانون کو فوجداری جرم قرار دیا گیا تھا تاکہ اس عمل کو روکا جا سکے۔
لیکن مصر میں FGM کے خاتمے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016ء میں قانون کی منظوری کے بعد سے اب تک کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکا۔
2017ء میں یونی سیف کی ایک تحقیق کے مطابق مصر دنیا میں چوتھا اور عرب دنیا میں تیسرا بڑا ملک ہے کہ جہاں ختنے سے دوچار خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2000ء میں خواتین میں ختنے کی شرح 97 فیصد تھی جو 2015ء میں گھٹتے گھٹتے 92 فیصد تک آئی اور 2016ء میں 87 فیصد رہ گئی لیکن 2017ء میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ ایک مرتبہ پھر 91 فیصد تک پہنچ گئی۔
Pingback: مصر کو خواتین کے خلاف ریاستی جبر کا خاتمہ کرنا ہوگا، کھلا خط - دی بلائنڈ سائڈ