فروری کی ایک صبح امیت زینا، فرضی نام، کو نائیجیریا کے شہر کانو میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ مبینہ ملزم کوئی اجنبی نہیں بلکہ اس کا پڑوسی تھا جس نے اپنی جان پہچان کا فائدہ اٹھایا اور چاکلیٹ کا لالچ دے کر بچی کو اپنے کمرے میں لے گیا اور پھر دھمکایا بھی کہ کسی کو بتانا نہیں۔ لیکن بچی کے کپڑوں پر لگے خون کے نشانات نے اس کی بیوہ اور غریب والدہ سلیمہ کو سب کچھ بتا دیا۔ وہ تھانے کا رخ کرنے سے گھبرا رہی تھیں لیکن پڑوسیوں کی ہمت افزائی پر آگے بڑھیں۔ نائیجیریا میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کیونکہ بدنامی کا خوف اور قانون پر عدم اعتماد کی وجہ سے ریپ کی شکار خواتین کی اکثریت انصاف کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی۔
ایسے واقعات نائیجیریا میں عام ہیں بلکہ ریپ اور جنسی حملے وبا کی طرح پھیل رہے ہیں، لیکن اب بھی ان پر بات کرنے کو ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر شمالی علاقوں میں کہ جہاں مسلم اکثریتی علاقوں میں قدامت پسند "سماجی اصول” عام ہیں۔
اس مسئلے کی شدت نے گزشتہ سال اگست میں سافٹ ویئر ڈیولپر سعادت علیو کو مجبور کیا کہ وہ ایسی اینڈرائیڈ موبائل فون ایپ بنائیں جو ایسے گمبھیر جرائم سے نمٹنے اور ثقافتی رکاوٹوں کو توڑنے میں مدد دے۔ "میں نے دیکھا کہ کانو میں ریپ اور جنسی حملے بڑھتے جا رہے ہیں اور نشانہ بننے والی خواتین اور لڑکیوں کی اکثریت کو معلوم تک نہیں ہوتا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا ہے۔”
اب ریپ کی شکار خواتین Helpio کا استعمال کر رہی ہیں، وہ بھی اپنی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھتے ہوئے۔ سعادت کے مطابق یہ ایپ انہیں ڈاکٹروں، جنسی و صنفی بنیاد پر تشدد (SGBV) کے شعبے سے وابستہ کارکنان اور قانونی نمائندوں کے ایک نیٹ ورک سے فوری رابطہ کرواتی ہے جو انصاف کو یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
یہ تمام تر مدد فوری اور مفت فراہم کی جاتی ہے اور یہ ایپ ہاؤسا زبان میں ہے جو اس خطے کی اہم ترین زبان ہے اور یوں عملاً شمالی نائیجیریا کے 3 کروڑ افراد تک رسائی رکھتی ہے۔ عام خواتین بھی اس ایپ کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں کہ خود کو اور اپنے خاندان کی اراکین کو کسی ممکنہ خطرے سے کیسے محفوظ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ فوری مدد پانے کے لیے ایک ہاٹ لائن بھی موجود ہے۔
Helpio ایک ایسے وقت میں لانچ کی گئی ہے جب کووِڈ-19 لاک ڈاؤنز کی وجہ سے "وبا کے دوران ایک نئی وبا” نے جنم لیا ہے، یعنی خواتین پر تشدد کی وبا۔ کانو میں رہنے والے آدم عباس کنیکٹڈ ڈیولپمنٹ (CODE) نامی ایک پلیٹ فارم کے رہنما ہیں، جو سرکاری اداروں میں عوامی خدمات بہتر بنانے اور اور SGBV کو گھٹانے کے لیے شعور اجاگر کرنے کا کام کر رہا ہے۔ عباس کہتے ہیں کہ وبا کے دوران لاک ڈاؤن اور نقل و حرکت محدود ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہو پا رہے۔ ٹرانسپورٹیشن کی عدم دستیابی اور صحت عامہ کے نظام تک رسائی محدود ہونے سے بھی رپورٹ کا عمل دھیما ہو گیا ہے۔
نائیجیریا کو 2018ء میں خواتین کے لیے دنیا کا نواں خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ ایک پول کے مطابق ملک میں ایک تہائی خواتین کو 25 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی نہ کسی قسم کے جنسی حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ یونی سیف کے اعداد و شمار کے مطابق ہر چار میں ایک لڑکی اور 10 فیصد لڑکوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ تشدد کو رپورٹ کرنے والے بچوں میں سے پانچ فیصد سے بھی کم کو کسی قسم کی سپورٹ دی گئی۔
قومی ادارۂ شماریات نے 2017ء میں ریپ اور نازیبا حملوں کے 2,279 واقعات پولیس میں رپورٹ ہونے کی اطلاع دی۔ کانو میں حالات مزید خراب ہیں۔ سلیمہ کو اپنی بیٹی کے ریپ کی اطلاع پولیس کو دینے میں مدد فراہم کرنے والے ہیومن رائٹس نیٹ ورک (HRN) کے مطابق اس کو 2019ء اور 2020ء کے دوران 626 جنسی حملوں کی خبریں ملی ہیں۔
پھر ریپ کا نشانہ بننے والوں کی بحالی کے لیے ریاستی مرکز WARAKA-SARC کے مطابق اس کے پاس 2017ء سے 2020ء کے دوران 2,125 کیس آئے لیکن رواں سال جنوری سے مارچ 2021ء کے دوران 200 جنسی حملوں کے واقعات کی اطلاع ملی ہیں، جن میں سے 85 فیصد 15 سال سے کم عمر لڑکیاں تھیں۔ یہ ریاستی مرکز SGBV کے خلاف حکومت کے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات میں سے ایک ہے۔ جسے کانو حکومت نے متاثرہ خواتین کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے 2017ء کے اواخر میں بنایا تھا۔
وفاقی اور ریاستی سطح پر جنسی جرائم کی سزا سخت کرنے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ جولائی 2020ء میں کانو میں ایک ایسی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے تحت ریپ پر 14 سال قید کی سزا میں نامرد بنانے کی سزا بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگلے ماہ وفاقی فوجداری قانون میں بھی تبدیلی لائی گئی جس میں SGBV کی سزا 10 سال سے بڑھا کر عمر قید کر دی گئی اور ریپ کا نشانہ بننے والی کے لیے مقدمہ دو ماہ کے اندر درج کروانے کی شرط بھی ختم کر دی گئی۔
انسانی حقوق کی کارکن اور ریاست کانو میں خواتین کے حقوق کے فروغ اور تحفظ (WRAPA) کی کوآرڈی نیٹر فاطمہ لوال عالیہ نے بتایا کہ کانو میں ریپ کے جرائم اس لیے زیادہ ہیں کیونکہ یہاں کبھی کسی کو اس بھیانک جرم پر عمر قید کی سزا نہیں دی گئی۔
عالیہ، عباس اور HRN کانو حکومت پر ایک وفاقی قانون کی تصدیق کے لیے دباؤ بھی ڈال رہے ہیں جو 2015ء میں منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت ریپ کرنے والے کو عمر قید اور ایسے جرائم کرنے والوں کا ایک رجسٹر مرتب کرنے کی بات کرتا ہے۔ ریاست کانو میں یہ قانون اب تک زیر غور ہے۔
ماہرین کے مطابق مضبوط قوانین کی عدم موجودگی کی صورت میں Helpio جیسی ایپس ایک مشکل کا خاتمہ کر رہی ہیں۔ بہت سی خواتین محض اس لیے واقعے کو رپورٹ کرنے سے گھبراتی ہیں کیونکہ انہیں مجرم کے ہاتھوں حملے کا خدشہ ہوتا ہے۔
2019ء کے ایک پول کے مطابق شمال مرکزی نائیجیریا، کہ جس میں کانو بھی شامل ہے، میں SGBV کو رپورٹ کرنے کی شرح بہت کم ہے، صرف نصف خواتین ہی ایسے جرائم کی اطلاع پولیس کو کرتی ہیں۔ سروے کے مطابق 46 فیصد خواتین کے لیے اس کی وجہ بدنامی کا خوف ہے جبکہ 14 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ الٹا الزام انہی پر لگے گا۔ اس لیے ایپ میں بے نام ہو کر رپورٹ کرنے کا فیچر کیس رپورٹ کرنے میں مدد دے گا۔
لیکن گزشتہ سال موسمِ گرما میں لانچ ہونے کے باوجود یہ ایپ اب تک صرف 1,000 صارفین ہی کی توجہ حاصل کر پائی ہے جس کی وجہ اس کی محدود تشہیر ہے۔ البتہ ڈیولپر سعادت علیو امید کرتی ہیں کہ وفاقی وزارت مواصلات و ڈجیٹل اکانمی اور نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ ایجنسی کی حالیہ مدد کے بعد ایپ کو دیہی علاقوں تک پھیلانے اور آئی فون صارفین کے لیے بھی بنانے میں مدد ملے گی۔
سعادت کہتی ہیں کہ Helpio ان بنیادی اقدامات میں سے محض ایک ہے جو SGBV سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہم سب جنسی حملوں کے خاتمے اور نائیجیریا کو سب کے لیے ایک محفوظ ملک بنانے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
جواب دیں