اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) کے پاکستان میں صنفی مشیر محمد یونس خالد کہتے ہیں کہ نام نہاد میڈیا بحران کی وجہ سے پاکستان کے نیوز رومز خواتین کی توانا آوازوں سے محروم ہو گئے ہیں اور جو خلا پیدا ہوا ہے اسے انتظامیہ گھٹیا انداز میں پُر کر رہی ہے۔
وہ عکس ریسرچ سینٹر کی جاری کردہ "پاکستان میڈیا کووِڈ کے ایام میں: ایک صنفی توجہ” رپورٹ کے اجرا کے موقع پر ایک ویبنار سے خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے میڈیا میں خواتین کی کم نمائندگی کو "جنوبی ایشیا کا مرض” قرار دیا، جس کی وجہ سے خواتین کے حوالے سے خبریں زیادہ تر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ "موٹر وے گینگ ریپ کیس کی کوریج دیکھیں، زیادہ تر خبریں متبادل منظرناموں کے تخیلات پر مبنی تھیں، بجائے اس کے کہ اصل مسئلے پر توجہ دی جاتی، یوں خواتین کے حوالے سے اسی دقیانوسی سوچ کو فروغ دیا گیا۔”
انہوں نے کہا کہ صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی خبروں میں مستقل مزاجی نظر نہیں آتی، کیونکہ نیوز رومز ایسی خبروں کو کوَر کرنا ضروری ہی نہیں سمجھتے۔
بنگلہ دیش میں خواتین کے حقوق کی علم بردار اور ‘نوری پوکھو’ کی بانی شیریں پروین حق نے کہا کہ خواتین کو مین اسٹریم میڈیا کی خبروں میں جگہ پانے کے لیے یا تو مرنا پڑتا ہے یا اپنی ہڈیاں تڑوانا پڑتی ہیں۔ انہوں اس کی وجہ "زن بیزاری کے کلچر” کی اندر تک موجود جڑوں کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ صنفی بنیاد پر تشدد کی صورت حال تو کووِڈ-19 کے دوران مزید گمبھیر ہو گئی ہے۔
سری لنکا میں سینٹر فار انوسٹی گیٹو رپورٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر دلرکشی ہندونیتی نے کہا کہ صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی خبروں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، جتنے یہ واقعات پیش آتے ہیں۔ کووِڈ-19 بحران کے دوران میڈیا نے خواتین کو سخت مایوس کیا ہے اور وبا سے نمٹنے میں ان کے کردار کو بھی نظر انداز کیا ہے۔
بھارتی صحافی نپور باسو نے کہا کہ خواتین پر تشدد کا مسئلہ محض جنوبی ایشیا تک محدود نہیں بلکہ یہ مغرب میں بھی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اُن کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے قوانین موجود ہیں۔
امریکا میں ‘سینٹر فار ویمنز گلوبل لیڈرشپ’ کی ڈاکٹر کوسیٹ تھامسن نے کہا کہ ڈیٹا کی کمی بھی خواتین کی حالتِ زار میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ مثلاً کووِڈ کے دوران امریکا میں صحت کے شعبے میں دیگر طبقات کے مقابلے میں سیاہ فام خواتین اموات کا زیادہ شکار ہوئی ہیں، لیکن ان کو اتنی توجہ نہیں ملی۔ میڈیا نے کئی اہم خبروں اور پہلوؤں کو اہمیت نہیں دی مثلاً اس وبا کے دوران بچوں کو تنہا پالنے والی خواتین کے مسائل، حالانکہ ایسی خواتین کی تعداد 15 ملین ہے، پھر بے گھر خواتین بھی۔
Pingback: حقوقِ نسواں کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا اصلاحات کا مطالبہ - دی بلائنڈ سائڈ