سان فرانسسکو میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کا پسِ منظر رکھنے والے نتاشا سید کے لیے یہ پاکستانی مرد و خواتین کے حوالے سے موجود عام تصورات تھے، جنہوں نے انہیں اپنا ٹاک شو بنانے کی تحریک دی۔ یوٹیوب چینل "شام کی چائے” کی بانی کہتی ہیں کہ جب پاکستان کی بات آتی ہے تو ذہن میں پہلا تصور ‘مظلوم عورت’ اور ‘ظالم مرد’ کا آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں تصورات ہی غلط ہیں۔ ‘کامیاب عورت’ اور ‘مددگار مرد’ کی صورت میں کوئی تیسرا نظریہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ میں یہی بیانیہ سامنے لانا چاہتی ہوں۔”
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی نژاد کینیڈین نتاشا نے اپنی کمپنی Unboxd بنائی، جس میں ان کی توجہ STEM شعبوں یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی سے وابستہ خواتین کی زندگی کی داستانیں شیئر کرنے پر ہے۔ ان کے ٹاک شو میں شمالی امریکا میں مقیم پاکستانی و پاکستانی نژاد مرد و خواتین آتے ہیں۔
نتاشا نے کہا کہ "اتنے زبردست لوگ ملے جو دنیا کے بہترین اداروں میں کام کرتے ہیں۔ یہ سب ان شعبوں سے وابستہ ہیں جن کے حوالے سے وہ پُر جوش ہیں اور یہاں کام کر کے وہ اپنی کمیونٹی کو کچھ لوٹانا چاہتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے۔”
نتاشا نے اپنے کیریئر کا آغاز FIFA14 کی ٹیم میں ایک اینالسٹ کی حیثیت سے کیا۔ اب وہ سلیکون ویلی کے ادارے ریلی ہیلتھ میں سینئر پروڈکٹ مینیجر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں لیکن ویک اینڈ پر اور فارغ اوقات کو لوگوں کے ساتھ گفتگو کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
کینیڈا کے شہر وینکوور میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والا نتاشا کے رول ماڈلز ان کے والدین ہیں، جو کینیڈا میں پاکستانی کمیونٹی کے ابتدائی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ "عید ہو یا رمضان کی دعوتیں، یومِ پاکستان ہو یا یومِ آزادی کی تقریبات بلکہ ہر اہم موقع بلکہ ہر ویک اینڈ پر ہمارا گھر ہر قومیت کے افراد سے بھرا رہتا تھا۔ اپنے تیوہاروں اور روایات کے بارے میں دوسروں کو بتانے سے ہی ہم اپنے کلچر سے جڑے رہے۔”
نتاشا کے والد جو تارکینِ وطن کی پہلی نسل تھے، نے اپنا ماسٹرز کینیڈا میں مکمل کیا اور نتاشا اور ان کے تین بہن بھائیوں کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا، خاص طور پر سائنس سے۔ ان کی والدہ ایک مشہور ٹاک شو کی میزبان تھیں اور کمیونٹی کی بہت اہم شخصیت بھی اور انہیں ان دونوں کی خصوصیات ملی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نتاشا کو اپنی شخصیت کے دو پہلوؤں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا کہا جاتا ہے تو انہیں جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔ "اسکول آپ کو مجبور کرتے ہیں کہ سائنس اور آرٹس میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ میں سوچتی آخر دونوں کیوں نہیں؟۔ ہمیشہ دیکھا ہے کہ پوپ کلچر میں بھی کسی ایک کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یا تو پڑھاکو لڑکی یا فیشن کی دلدادہ، درمیان کی کوئی جگہ ہی نہیں ہوتی۔”
جب نتاشا سائمن فریزر یونیورسٹی، برٹش کولمبیا میں انڈر گریڈ کے فائنل ایئر میں تھیں، جہاں وہ سافٹ ویئر انجینئرنگ اور مشین لرننگ پڑھتی تھیں تب ان کے والد میں دماغ کے سرطان کی تشخیص ہوئی۔ تعلیم کا آخری سیمسٹر تو ایسے ہی نکل گیا۔ جب والد کا انتقال ہوا تو نتاشا کی عمر 22 سال بھی نہیں تھی۔ "تب مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی کس طرح ایک سائبان تلے گزر رہی تھی اور ہمیں پتہ بھی نہیں تھا۔ اچانک یہ سائبان ہٹا تو سب کچھ خود سیکھنا پڑا۔ اپنا ٹیکس ادا کرنا، گھر کے لیے قرض لینا، ایک بڑے کی حیثیت سے کام کرنا، گویا شخصیت ہی بدل گئی۔”
جلد ہی نتاشا اپنے انداز میں والدین کے نقشِ قدم پر چل پڑیں۔ انہوں نے "Humans of STEM” کے نام سے ایک ٹاک شو کا آغاز کیا۔ بعد میں اس کی توجہ STEM میں خواتین پر ہو گئی۔ بعد ازاں کئی برانڈز نے اُن سے رابطہ کیا کہ وہ ان موضوعات پر دستاویزی فلمیں بنائیں۔
پھر کووِڈ-19 آ گیا اور نتاشا کو ایک مرتبہ پھر گیئر تبدیل کرنا پڑے۔ "اس وقت میرے پاس فلم بندی کا سارا سامان تھا، اس لیے میں نے اپنے گھر کے آنگن ہی میں ایک سیٹ ڈیزائن کیا اور آئیڈیا تھا شام کی چائے پر ٹاک شو کا، اکتوبر 2020ء میں اس کی فلم بندی بھی شروع ہو گئی۔”
اس پروگرام میں امریکا اور کینیڈا میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن کے انٹرویوز ہوتے اور پاکستان میں موجود ٹیم اس کی پروڈکشن کا کام کرتی۔ انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ان شوز کے teaser بھی بڑے مزیدار ہوتے ہیں مثلاً "آنکھیں مجنوں ہوں تو چائے بھی لیلیٰ لگتی ہے۔”
نتاشا امریکا، پاکستان اور بھارت میں ابتدائی اسٹارٹ اپس کی مدد کرتی ہیں اور خواتین کو با اختیار بنانے کے معاملے میں ‘مشرق بمقابلہ مغرب’ کے حوالے سے چند خاص مشاہدات رکھتی ہیں۔ "کیونکہ ہم دیسی ہیں، اس لیے ہمارے ذہن میں بچپن ہی سے یہ تصور ہوتا ہے کہ ورکنگ ویمن خود غرض ہوتی ہیں۔ مغربی دنیا میں کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کے اپنے مسائل ہیں، تنخواہوں میں فرق سے لے کر جنسی حملے تک۔ لیکن یہاں خواتین کے لیے کیریئر بنانا آسان ہے کیونکہ یہاں خواتین پر وہ سماجی ذمہ داریاں عائد نہیں ہوتیں۔”
فی زمانہ انٹرنیٹ نے عالمی سرحدیں ختم کر دی ہیں، لیکن پھر کووِڈ-19 نے رابطے کرنے کے انداز بھی بدل دیے۔ "لوگ ڈجیٹل رابطہ کرنے پر مجبور ہیں اور یہ ایک لحاظ سے اچھی بات بھی ہے۔ اب ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے درمیان اختلافات سے کہیں زیادہ یکسانیت موجود ہے۔”
جواب دیں