کویت میں خاتون کا بھیانک قتل، سوشل میڈیا پر زبردست ہنگامہ

کویت میں فرح اکبر نامی ایک خاتون کو ایسے شخص نے قتل کر دیا کہ جس کے خلاف اس نے اغوا اور اقدامِ قتل کے دو مقدمات درج کروا رکھے تھے۔

فہد صبحی نامی مجرم نے اپنی گاڑی سے فرح کی گاڑی کو ٹکر ماری، پھر اسے اغوا کیا اور گاڑی میں موجود دونوں بیٹیوں کو بھی اٹھا لیا اور پھر ان کے سامنے ان کی والدہ کو خنجر مار کر قتل کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ گاڑی چلا کر ہسپتال لایا اور وہاں لاش پھینک کر فرار ہو گیا۔

سامنے آنے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فرح کا خاندان ہسپتال کے باہر غم کی کیفیت میں کہہ رہا ہے کہ "ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ اسے قتل کر دے گا، اور اس نے ہماری بہن کو مار ہی دیا۔”

وزارتِ داخلہ کے بیان کے مطابق ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس نے اقرارِ جرم بھی کر لیا ہے۔ جبکہ مقتولہ فرح کے وکیل نے وضاحت کی ہے کہ قاتل نہ فرح کا شوہر ہے اور نہ تھا، اس حوالے سے جو خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، وہ سراسر غلط ہیں۔

مقتولہ کی بہن دانہ اکبر نے کہا کہ "ہم نے فہد کے خلاف دو مختلف مواقع پر دو مقدمات درج کروائے تھے، لیکن دونوں بار اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ہم نے بارہا کہا کہ یہ شخص ہمارے خاندان کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔”

صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو آواز عطا کرنے والا پلیٹ فارم چلانے والی ڈاکٹر شیما شمو کہتی ہیں کہ "باوجود اس کے کہ ایک کے بعد دوسرے تھانے جا کر پرچے کٹوائے جاتے رہے، لیکن کسی نے فرح کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ انہوں نے مجرم کو جانے دیا، اب جو ہوا ہے، اس کا جواب کون دے گا؟”

فرح کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے اور کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آخر اقدامِ قتل کے مقدمے کے بعد کسی شخص کو کیسے اس طرح چھوڑا جا سکتا ہے۔ کویت میں ٹوئٹر پر "اگلا شکار میں” کے نام سے ٹرینڈ چلتا رہا، جس میں کئی لوگوں نے ہراسگی اور تشدد کی شکایات کے خلاف تحفظ نہ ملنے کا گلہ کیا اور کہا کہ کویت خواتین کے لیے غیر محفوظ  ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر شمو نے کہا کہ "جو فرح کے ساتھ ہوا، وہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ قتل کے دیگر واقعات کی طرح یہ کیس بھی ظاہر کرتا ہے کہ ریاست خواتین کو ایک محفوظ ماحول فراہم نہیں کر سکی۔”

گو کہ فرح اکبر کے قتل کا واقعہ افسوس ناک ہے، لیکن بد قسمتی سے یہ ان کئی واقعات میں سے محض ایک ہے، جن میں ہراسگی کے بعد معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور نتیجہ خاتون کے قتل ہونے کی صورت میں نکلا۔

ڈاکٹر شموکو روزانہ ایسی کئی خواتین کے پیغامات ملتے ہیں جنہیں ہراساں کیا گیا اور قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی خواتین نے واقعہ رپورٹ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن انہیں جواب دیا گیا کہ "وہ کچھ نہیں کر سکتے۔”

کویت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن اور محقق ابرار شماری کہتی ہیں کہ "قتل کے ان واقعات کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک خواتین کے پولیس تھانے جانے کو غلط سمجھنا بھی شامل ہے۔”

کئی خواتین اپنے ہی خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔ مثلاً ابھی دسمبر میں دسمبر میں کویت کی پارلیمان میں گارڈ کی ذمہ داریاں انجام دینے والی شیخہ العجمی کو ان کے بھائی نے قتل کر دیا تھا۔ ان سے چند مہینے پہلے ایک حاملہ خاتون فاطمہ عجمی کو ان کے بھائی نے ہسپتال کے آئی سی یو میں گولی مار کر قتل کیا تھا۔ پھر 2019ء میں حاجر العاصی کو ان کے بھائی نے قتل کیا اور دسمبر 2018ء میں غالیہ ظفیری کو ان کے بھائی نے خنجر کے وار سے قتل کر دیا تھا، انہیں بعد ازاں صحرا میں پھینک دیا گیا تاکہ واقعے کو حادثے کا روپ دیا جا سکے اور ان کے بھائی کو بچایا جا سکے۔

بہرحال، اگست 2020 میں کویت کی پارلیمان نے گھریلو تشدد کا قانون منظور کیا۔ گو کہ پارلیمان سے منظوری کے بعد ایک مہینے بعد یہ قانون لاگو ہو گیا لیکن قانون کی موجودگی اور اس کے عملی نفاذ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

ابرار شماری کہتی ہیں کہ شعور اجاگر کرنا اور ہراسگی سے جڑی ممنوعیت کو توڑنا اب بہت ضروری ہے۔ وقت ہے کہ پولیس میں مزید خواتین بھرتی کی جائیں اور ہراسگی اور ملتے جلتے واقعات کو رپورٹ کرتے وقت کسی خاتون اہلکار کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے