افغانستان کا ریڈیو-ٹیلی وژن چینل جو خواتین چلاتی ہیں

خانہ جنگی سے بے حال افغانستان کے دیگر علاقوں کی طرح شمالی صوبہ جوزجان میں بھی حالات انتہائی کشیدہ ہیں، خاص طور پر خواتین کے لیے اپنی عام سماجی سرگرمیاں کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ لیکن ندا صادق اوغلو کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لاتیں اور ان کی بہادری و دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومت شبرغان میں دو سال سے ایک ریڈیو-ٹیلی وژن چینل "غزل” چلا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ملک میں جاری جنگ اور تشدد کا نتیجہ افغانستان کی تباہی اور عوام کی ہلاکت ہے۔ اس لیے جنگ کے خاتمے کے لیے مجھ سمیت سب کو ایک متحرک کردار ادا کرنا ہوگا اور میڈیا اور دیگر اداروں کو مل کر امن کے لیے کام کرنا ہوگا۔”

‏32 سالہ ندا نے افغان عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا کے کردار اور اس کے ذریعے امن کے فروغ کو ضروری قرار دیا۔

ان کے ادارے میں 20 کارکن ہیں، جن میں سے 8 خواتین اور لڑکیاں ہیں۔ غزل ریڈیو-ٹیلی وژن چینل موسیقی، خبریں اور تفریحی پروگرام نشر کرتا ہے۔

ندا کہتی ہیں کہ ایک قدامت پسند اور خانہ جنگی سے دوچار ملک میں بحیثیتِ صحافی کام کرنا بہت مشکل ہے۔

انہیں یہ سن کر سخت صدمہ پہنچا تھا جب کچھ مہینے پہلے صوبہ ننگرہار میں نامعلوم مسلح افراد نے چار خواتین صحافیوں کو قتل کر دیا تھا۔ یہ ملزمان اب بھی مفرور ہیں۔ "خواتین صحافیوں پر حملے باعثِ تشویش ہیں۔ لیکن ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں، ہم افغان معاشرے کے مسائل کو اجاگر کرنے اور امن کے قیام کے لیے اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ اس وقت افغان عمل کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، ان میں افغان خواتین کے حقوق اور ان کی کامیابیوں کا تحفظ بھی ہونا چاہیے اور اس کی ضمانت ملنی چاہیے۔

افغانستان میں اس وقت بھی حالات کس قدر سنگین ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں 39 شہریوں کی جانیں گئی ہیں اور 40 زخمی ہوئے ہیں۔

غزل ٹی وی میں کام کرنے والی ایک صحافی خالدہ نے کہا کہ "دفتر آتے ہوئے مجھے حملے یا اغوا ہونے کا خدشہ رہتا ہے، لیکن میں بحیثیتِ صحافی یہ کام نہیں چھوڑوں گی کہ میرے چھوڑنے سے عسکریت پسندوں کو حوصلہ نہ ملے جو صحافیوں کو اپنے فرائض سے دُور کرنے کے لیے تشدد کا بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے