سوئیڈن میں خواتین کے قتل کی وارداتوں میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک بھر میں کم از کم پانچ خواتین مردوں کے ہاتھوں قتل ہوئی ہیں۔
وزیر اعظم اسٹیفن لوفوین نے فیس بک پر کہا ہے کہ "خواتین کے خلاف بھیانک جرائم کے مرتکب مردوں کو سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن تشدد کے ان معاملات کو محض انفرادی حیثیت تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جس سے ہمیں مل جل کر لڑنا ہوگا۔”
لوفوین نے بتایا کہ صرف 2020ء میں تقریباً 9 ہزار خواتین نے رپورٹ کیا کہ انہیں ایسے مردوں کے ہاتھوں تشدد کا سامنا ہے جو اُن کے قریبی ہیں۔
اپنی پوسٹ میں انہوں نے زور دیا کہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے مردوں کو بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ "خاص طور پر ہمیں، یعنی مردوں کو آگے بڑھ کر تشدد سے انکار کرنا ہوگا۔ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر اصل مردانگی ہے کیا؟ کسی کو تشدد کا نشانہ بنانا یا ہراساں کرنا تو ہر گز مردانگی نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے پیاروں پر اپنی طاقت جتانے کے لیے تشدد کا استعمال کرے یا انہیں دھمکیاں دے تو اس رویّے کو ہر گز قبول نہ کریں۔ نہ نظریں چرائیں، نہ معذرت کریں بلکہ خطرے کی گھنٹی بجا دیں۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت خواتین پر تشدد کو روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔
دوسری جانب سینٹر پارٹی کی رہنما اینی لوف نے بھی خواتین پر تشدد کی مذمت کے لیے فیس بک کا رُخ کیا اور کہا کہ "معاشرے سے جس سخت ردعمل کی توقع ہے، وہ کہاں ہے؟ سیاست میں میرے شریک ساتھیوں کا؟ وہ کمیشن کہاں ہے جو طاقتور بنے پھرتے ہیں؟ میں مردوں کے ہاتھوں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے کسی بھی وقت پارٹی قیادت کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوں۔”
جواب دیں