یہ ہیں حمیرا فرح، آپ پاکستان کی پہلی خاتون کرکٹ امپائر ہیں۔
اب تک 170 مقامی اور بین الاقوامی میچز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والی حمیرا کہتی ہیں کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے بحیثیتِ امپائر کیریئر کو اختیار کیا اور اسے آخر تک جاری رکھا۔ "اور بھی خواتین امپائرز آتی جاتی رہیں، لیکن انہوں نے تسلسل جاری نہیں رکھا البتہ میں نے پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اس پیشے میں کام کیا۔ آج کوچنگ اور امپائرنگ کے شعبے میں کئی نئی خواتین موجود ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ آج سے 30، 35 بلکہ ابھی 15 سال پہلے بھی اس شعبے میں کوئی خاتون نہیں تھیں۔ اسے عورتوں کا کام سمجھا ہی نہیں جاتا تھا اور بہت مشکل کام تصور کیا جاتا تھا۔ سارا دن میدان میں کھڑے رہنا اور میچز کروانے کا ذہنی دباؤ۔ لوگ سمجھتے تھے یہ عورت کے بات نہیں۔ اسی لیے میں نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔
حمیرا کھیل کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ہاکی کی کھلاڑی کی حیثیت سے کیا تھا اور قومی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ وہ گزشتہ 30 سالوں سے ایک منتظم کی حیثیت سے کھیل کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ لاہور گیریزن یونیورسٹی میں ڈائریکٹر اسپورٹس کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ 2005ء میں میں نے سنا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ویمنز وِنگ بنا رہا ہے اور تب میں نے امپائرنگ کا فیصلہ کیا۔ اسی سال میں نے پی سی بی پینل I اور II امپائرنگ کورسز کیے اور اپنے اِس کیریئر کا آغاز کیا۔ آج بھی مجھے فخر ہے کہ میں اس ملک کی پہلی خاتون امپائر ہوں جبکہ میرے بعد مزید آٹھ خواتین امپائرز سامنے آ چکی ہیں۔
فرح کہتی ہیں کہ "علیم ڈار سے میں بہت متاثر ہوتی ہوں اور احسن رضا کی امپائرنگ بھی پسند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مجھے دیکھ کر مزید خواتین کو بھی تحریک ملے گی۔ اب خواتین کے میچز کی تعداد بڑھنے کے بعد جلد ہی مزید خواتین امپائرز بھی سامنے آئیں گی۔ پی سی بی کی کوششوں سے ملک میں ویمنز کرکٹ کافی مقبول ہو گئی ہے اور اس شعبے میں پہلے سے کہیں زیادہ مواقع ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ اس شعبے میں خواتین کی آمد مزید بڑھے گی اور ان کی کرکٹ کا معیار مزید بہتر ہوگا۔ جب میں کھیلتی تھیں تو ویمنز اسپورٹس صرف کالج اور یونیورسٹی لیول تک محدود تھی لیکن حالیہ چند سالوں میں ویمنز اسپورٹس، خاص طور پر کرکٹ، پروفیشنل سطح تک پہنچ چکا ہے اور اس کے لیے پی سی بی نے بہت نمایاں کردار ادا کیا ہے۔”
حمیرا اپنے خاندان کی واحد فرد ہیں جنہوں نے کھیل کو اپنا کیریئر چنا۔ اس شعبے میں اپنی کامیابی کا سہرا وہ اپنی والدہ کے سر باندھتی ہیں جنہوں نے انہیں حوصلہ دیا کہ وہ اپنے خواب پورے کر سکیں۔ کہتی ہیں "امپائرنگ کرنا اور ساتھ ساتھ گھر چلانا آسان نہیں ہے لیکن میں نے اپنی گھریلو ذمہ داریوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی۔ میں اپنا گھر بھی ویسے ہی پروفیشنل انداز سے چلاتی ہوں، جس طرح امپائرنگ کے فرائض سر انجام دیتی ہوں۔”
جواب دیں