ایک ٹریفک حادثے کے بعد ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں اروڑا اکنکشا کو اندازہ ہوا کہ موت کے سامنے زندگی کیا ہے۔
"خوش قسمت تھی کہ اندرونی اعضا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا، محض ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی اور چند خراشیں آئی تھیں۔” اروڑا کو ایک ٹیکسی نے ٹکر مار دی تھی لیکن یہ حادثہ جو مہلک بھی ثابت ہو سکتا تھا، ان کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لانے کا سبب بنا۔ وہ کہتی ہیں "خدا نے مجھے کسی مقصد کے لیے بچایا تھا۔ میں نے خود سے سوال کیا کہ میں نے دنیا کے لیے کیا کیا ہے؟ اور پھر عزم کیا کہ مجھے کچھ کرنا ہے۔”
پھر 2016ء میں انہوں نے اقوامِ متحدہ میں شمولیت اختیار کی اور دو سال بعد انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ادارہ جن لوگوں کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا، انہی کو مایوس کر رہا ہے۔ جنوری 2019ء میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ تبدیلی لانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی جائے۔
اب 34 سالہ اروڑا اکنکشا اقوامِ متحدہ کی اگلی سیکریٹری جنرل بننے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئیں تو نہ صرف اقوامِ متحدہ کی کم عمر ترین سیکریٹری جنرل بنیں گی، بلکہ اس عہدے پر پہنچنے والی پہلی خاتون بھی ہوں گی۔
I am Arora Akanksha. I am 34 years old and I am running for Secretary-General of the United Nations. @UNOW_official #UNthatworks #Aroraforsg #UNOW pic.twitter.com/urdYXn03wA
— Arora Akanksha (@arora4people) February 9, 2021
وہ کہتی ہیں کہ "اقوامِ متحدہ نے لوگوں کو مایوس کیا ہے، اس نے وہ خدمات انجام نہیں دیں جو اس کی ذمہ داری تھیں۔ اقوامِ متحدہ کا مسئلہ فیصلہ سازی نہیں، بلکہ اس کا نفاذ ہے جس میں اسے ناکامی کا سامنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا اس پر اعتماد کم ہو رہا ہے اور بحیثیتِ ادارہ اس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔”
ہو سکتا ہے کہ سفارتی تجربے کی کمی اروڑا کی راہ میں رکاوٹ بنے، لیکن وہ اپنی پوری تیاری کر رہی ہیں اور ایک ایسے عہدے کے لیے میدان میں آ رہی ہیں جس پر فی الحال ان سے دو گنی عمر کے انتونیو گوتیریس موجود ہیں۔
انہیں اس کا بھرپور اندازہ ہے لیکن کہتی ہیں کہ سفارت کاری محض کانفرنس رومز اور سیاسی اجلاسوں میں ہی نہیں سیکھی جاتی۔
اروڑا بھارت میں پیدا ہوئیں اور صرف چھ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہو گئیں۔ تین سال بعد انہیں بورڈنگ اسکول میں داخلے کے لیے واپس بھارت بھیج دیا گیا کیونکہ ان کے والدین اتنی مالی سکت نہیں رکھتے تھے کہ انہیں سعودی عرب کے اس شہر میں واقع واحد امریکن اسکول میں داخل کروا سکیں۔
وہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد 18 سال کی عمر میں انہیں ٹورنٹو کی یارک یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ تعلیم کے لیے اسکالر شپ ملی اور یونیورسٹی مکمل کرنے کے بعد وہ کینیڈا ہی میں مقیم ہو گئیں۔ 2016ء میں وہ اقوامِ متحدہ میں کام کرنے کے لیے نیو یارک منتقل ہو گئیں۔
اس پسِ منظر کی وجہ سے اروڑا کہتی ہیں کہ "مختلف ملکوں اور ثقافتوں میں رہتے ہوئے لوگوں کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا ہی سفارت کاری ہے۔ ان کا خیال رکھنا، انہیں سراہنا اور تنوّع کو قبول کرنا اور سب کا احترام کرنا، سفارت کاری کی بنیاد ہے۔”
ان کی ترجیحات میں سر فہرست عالمی مسائل میں نمایاں مہاجرین کا بحران ہے، کیونکہ وہ اقوامِ متحدہ کو مہاجرین کا سرپرست سمجھتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے مطابق دنیا بھر میں اِس وقت کم از کم 79.5 لوگ بے گھر ہیں۔ ان میں سے تقریباً 46 ملین داخلی طور پر بے گھر افراد (IDPs) ہیں اور تقریباً 26 ملین مہاجرین ہیں جن میں سے تقریباً نصف کی عمر 18 سال سے بھی کم ہے۔
ان کی ترجیحات میں موسمیات، تعلیم، ٹیکنالوجی اور کووِڈ کی وبا کے بعد معاشی بحالی بھی شامل ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے بھی بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں کبھی کسی خاتون کو سیکریٹری جنرل کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔ پانچ سال پہلے جب آخری بار انتخابات ہوئے تھے تو 13 نامزد امیدواروں میں سے 7 خواتین تھیں۔ جبکہ موجود ڈپٹی سیکریٹری جنرل نائیجیریا کی امینہ محمد ہیں۔ اس لیے اروڑا سمجھتی ہیں کہ یہ بہترین وقت ہے دنیا کو دِکھانے کا کہ خواتین قیادت حاصل کر سکتی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ "اقوامِ متحدہ کی کسی خاتون سربراہ کے تقرر میں ہمیں 75 سال کی تاخیر ہو گئی ہے۔ یہ میری صلاحیتوں ہی کا نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کا بھی امتحان ہے کہ کیا وہ واقعی صنفی مساوات پر اور خواتین کو خود مختار بنانے پر یقین رکھتی ہے یا یہ محض باتیں ہیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس چیز کی آپ تبلیغ کرتے ہیں، اس پر خود بھی عمل کریں۔ مساوات کو عملاً ثابت کرنا خواتین کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ پھر اپنی اہلیت اور ذہانت کو بھی ثابت کرنا ایک نوجوان کی حیثیت سے مزید مشکل ہے۔”
اروڑا کا کہنا ہے کہ "کم عمری میں ہی دنیا بھر کی مختلف ثقافتوں، لوگوں اور مذاہب کا تجربہ اٹھانا اور ایک آزاد و خود مختار زندگی گزارنا انہیں بہت اہم صلاحیتیں اور مہارتیں دے چکا ہے۔”
رواں سال اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے انہیں امید ہے کہ اقوامِ متحدہ "نئے زاویہ نظر اور تازہ خیالات” کو موقع دے گی، جو وہ لانا چاہتی ہیں لیکن اس موقع کو حاصل کرنے کے لیے انہیں بھی بھرپور اندازہ ہے کہ انہیں خود ایک تاریخ رقم کرنا ہوگی۔
Pingback: کیا روسالیا آرتیاگا اقوامِ متحدہ کی پہلی خاتون سربراہ بن سکتی ہیں؟ - دی بلائنڈ سائڈ