داعش 2003ء سے اب تک تقریباً 30 ہزار شہریوں کو قتل، 55 ہزار کو زخمی اور 30 لاکھ کو بے گھر کر چکی ہے۔ اس کے دہشت گردوں کا خاص نشانہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے تھے، بالخصوص یزیدی اور مسیحی۔ یزیدیوں کو "شیطان کے پجاری” قرار دے کر پکڑ لیا جاتا اور ان کے بچوں کو فوجی بھرتی کر لیا جاتا یا جنسی غلام بنا لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے عراق کے انسانی بحران کو "دنیا کے بد ترین بحرانوں” میں شمار کیا ہے۔
یہ پوری مہم ایک سوچی سمجھی نسل کشی تھی اور عراق کی پارلیمان نے اسے اپنے یزیدی پسماندگان بل (Yazidi Survivors Bill) کے ذریعے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
داعش کے ڈھائے گئے مظالم کی تلافی کا ہدف رکھنے والے اس بل کو انسانی حقوق کے رہنماؤں کی جانب سے انقلابی قانون قرار دیا گیا۔ لیکن نیا قانونی کتنا ہی غیر معمولی کیوں نہ ہو لیکن داعش کے مظالم کو سہنے والے افراد کی ذہنی کیفیت درست کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ جو یقینی موت سے بچے، انہیں جینا ہوگا اسی کے ساتھ جو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور ذہن جس کی شدت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔
26 سالہ شیل دار نے خود پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بتایا کہ وہ اور اس کے بھائیوں کو 2015ء میں داعش نے پکڑ لیا تھا اور انہیں کم عمر فوجیوں کی حیثیت سے بھرتی کر لیا تھا۔ "داعش کے دہشت گرد بار ہا ہمیں تشدد کا نشانہ بناتے۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تشدد موت سے بھی بد تر چیز ہوتی ہے۔ انہوں نے ہم پر ناقابلِ بیان ظلم ڈھائے۔”
23 سالہ سیرن نے بھی اپنے ساتھ پیش آنے والی ظلم کی داستان بیان کی ہے۔ ان کی داستان بھی ان ہزاروں یزیدی لڑکیوں جیسی ہے کہ جنہیں پکڑ لیا گیا اور داعش کے جنگجوؤں نے انہیں جنسی غلام بنا لیا۔ بالکل نوبیل انعام یافتہ نادیہ مراد کی طرح، جنہوں نے اپنی آپ بیتی "دی لاسٹ گرل” میں بتایا ہے۔ سیرن بتاتی ہیں کہ "شروع میں تو اس نے مجھے چھوا تک نہیں، لیکن ایک دن اس نے مجھے زد و کوب کیا۔ میں بہت ڈر گئی اور پھر بہت روئی۔”
ایک رات خوش قسمتی سے سیرن کو ایک موبائل فون مل گیا، جس سے اسے اپنی لوکیشن کا پتہ چلا اور اس جنگجو کی مددگار بیوی کی بدولت وہ بالآخر وہاں سے نکل کر اپنے گھر تک پہنچ گئی۔ "ایسا لگا میں نے ایک نیا جنم لیا ہے۔”
لیکن اپنے ناقابلِ یقین فرار اور پیاروں سے دوبارہ ملنے کے باوجود انہیں اب بھی "بہت تکلیف” محسوس ہوتی ہے۔ یہ زندگی بھر کا درد ہے، جس کا انہوں نے سامنا کیا۔
ایک تحقیق کے مطابق ان خواتین میں 80 فیصد ایسی ہیں جن میں PTSD یعنی Post-traumatic stress disorder کی تشخیص ہوئی ہے۔ داعش کے ہاتھوں انہیں اپنے مذہب اور وطن سے محروم اور اپنی نظروں کے سامنے اپنے عزیزوں کو مرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑا۔ پھر مہینوں بلکہ سالوں تک جسمانی و نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنیں، اس کے بعد یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ انہیں سخت ذہنی تناؤ اور شناخت کے بحران کا سامنا ہے۔
بلاشبہ داعش نے مرد اور خواتین دونوں کو نشانہ بنایا لیکن خواتین پر اس پوری صورت حال کا بوجھ زیادہ پڑا ہے۔ کئی خواتین کو اب بھی اپنے گھروں میں مظالم اور دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے شوہر کی عزت خاک میں ملی۔ 41 سالہ ایورن بتاتی ہیں کہ میرا شوہر سمجھتا ہے کہ میں نے خاندان کی ناک کٹوائی ہے۔ اب وہ معمولی معمولی باتوں پر مجھے مارتا پیٹتا ہے۔
ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ داعش کے ہاتھوں جنسی غلام بننے والی لڑکیوں اور خواتین کو واپس اپنی برادریوں میں دل سے قبول نہیں کیا گیا۔
ان کی اکثریت آج بھی مہاجر کیمپوں یا عارضی رہائش گاہوں میں رہتی ہے، جہاں معاش کے مواقع نہیں اور زندگی میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
2014ء سے اب تک عراقی کردستان 15 لاکھ بے گھر لوگوں کی میزبانی کر چکا ہے۔ ان میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین شامل نہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ کئی لوگوں نے کیمپوں میں خود کشی کر لی۔
عراق کا نیا بل مادّی سپورٹ دیتا ہے، مثلاً ایسے لوگوں کو رہائش کے لیے پلاٹ، پنشن اور ذہنی صحت کے اداروں سے رابطے دیتا ہے لیکن محض قانون سازی سے کسی قوم کی شناخت بحال نہیں ہو سکتی۔
اس صورت حال میں سوِل سوسائٹی کا کردار بہت اہم ہے اور وہ اسے نبھانے کے لیے اقدامات بھی اٹھا رہی ہیں۔ کئی انجمنیں ذہنی صحت کے ادارے قائم کر چکی ہیں جبکہ ایسی خواتین کے لیے سوشل گروپس اور آرٹ پروگرامز بھی تشکیل دیے گئے ہیں۔
Pingback: عراق، 12 سالہ بچی کی شادی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا - دی بلائنڈ سائڈ