چین نے صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کو با اختیار بنانے کی سمت میں نمایاں پیش رفت کی ہے اور سیاست، معیشت، ثقافت اور سماجی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو حقوق کی فراہمی یقینی بنا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کی عہدیدار یانگ وین چوانگ نے بیجنگ میں ‘اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن 2021ء’ رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کیا، جسے اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) نے جاری کیا ہے۔
یہ رپورٹ گزشتہ سال کے دوران عالمی آبادی میں آنے والی تبدیلیوں پر ایک گہری نظر فراہم کرتی ہے، جو یانگ کے مطابق چین کی آبادی کے حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔
حالیہ چند سالوں کے دوران چین نے مرد و عورت کی برابری کے آئینی اصول مرتب کیے ہیں اور 100 سے زیادہ ایسے قواعد و ضوابط لائے گئے ہیں یا قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں کہ جو خواتین کے حقوق کا تحفظ بہتر بنانے کے لیے ہیں۔
یانگ نے کہا کہ مرد اور عورت کے مابین مساوات چین کی بنیادی قومی پالیسی ہے۔ ہم صنفی مساوات کے تسلسل کو بہتر بنانے اور خواتین اور بچوں کے قانونی حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں اور خواتین کو با اختیار بنانے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2020ء میں چین میں بچوں میں اموات کی شرح گرتے گرتے 1,000 پر 5.4 تک آ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی شرح 1,000 پر 7.5 تک ہے۔ زچہ کی اموات کی شرح میں بھی کمی کا رحجان آیا ہے جو ہر 1,00,000 پر 16.9 پر پہنچ گئی ہے۔
جواب دیں