دنیا میں اِس وقت 20 ممالک ایسے ہیں جو ریپ جیسا گھناؤنا جرم کرنے والے کو سزا سے بچنے کے لیے ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون یا لڑکی کے ساتھ شادی کی اجازت دیتے ہیں۔ اس کا انکشاف اقوام متحدہ کی سالانہ عالمی آبادیاتی رپورٹ میں ہوا ہے۔ روس، تھائی لینڈ اور وینزویلا ایسے نمایاں ممالک ہیں کہ جہاں مجرم اپنے شکار کے ساتھ شادی کر لے تو اس کی ریپ کی سزا ختم کی جا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارۂ آبادیات (UNFPA) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیا کانم کہتی ہیں کہ ایسے قوانین "انتہائی ناحق” اور "خواتین پر جبر” پر مبنی ہیں۔ "حقوق سے محروم رکھنے کا یہ عمل قانون کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ ریپ کرنے والے کے ساتھ شادی کے قوانین میں جرم کا سارا بوجھ اس کی شکار بننے والی خاتون یا لڑکی پر ہو جاتا ہے اور یوں اس صورت حال کو قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، جو دراصل ایک گھناؤنا جرم ہے۔”
’ایکوالٹی ناؤ’ کی ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ و افریقہ دیما دبوس نے کہا کہ یہ قوانین اس رویّے کو ظاہر کرتی ہیں جو "خواتین کو جسمانی اختیار نہیں دینا چاہتا اور انہیں اپنے خاندان کی ملکیت سمجھتا ہے۔ یہ قبائلی اور دقیانوسی سوچ ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ان قوانین کو تبدیل کرنا مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مراکش میں اس قانون کا خاتمہ ہوا جب ایک لڑکی نے ریپ کرنے والے کے ساتھ جبراً شادی کرائے جانے پر خود کشی کر لی تھی اور اس کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی شدید لہر پیدا ہوئی تھی۔ اردن، فلسطین، لبنان اور تونس بھی پھر اسی کے نقشِ قدم پر چلے۔
البتہ کویت میں اب بھی اس گھناؤنے جرم کے مرتکب کو مظلوم خاتون یا لڑکی سے، اس کے ولی کی اجازت کے ساتھ، شادی کرنے اجازت ہے۔
روس میں اگر یہ جرم کرنے والا شخص 18 سال کی عمر کو پہنچ چکا ہو اور اس نے 16 سال سے کم عمر کی کسی لڑکی کے ساتھ ریپ کیا ہو تو اس کی سزا اس صورت میں ختم ہو سکتی ہے، اگر وہ اس کے ساتھ شادی کر لے۔
تھائی لینڈ میں بھی ریپ کے معاملے کا تصفیہ شادی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اگر مجرم کی عمر 18 سال سے زیادہ ہو اور ظلم کا نشانہ بننے والی لڑکی 15 سال سے زیادہ کی ہو، وہ "رضامندی” ظاہر کرے اور عدالت شادی کی اجازت دے۔
خواتین کو مطیع بنانے اور دبانے کے لیے شادی کے قوانین عام نظر آتے ہیں اور UNFPA کے مطابق ان کا خاتمہ مشکل ہے، مثلاً 43 ممالک میں شوہر کے ہاتھوں ریپ کا نشانہ بننے کے حوالے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں۔
رپورٹ کہتی ہے کہ خواتین کو اپنے جسم پر اختیار دینے کا سب سے اہم طریقہ تعلیم ہے، ساتھ ہی قوانین کو لازماً تبدیل ہونا چاہیے اور سماجی اقدار بھی صنفی طور پر متوازن ہونی چاہئیں۔ اس حوالے سے صحت کے شعبے سے وابستہ افراد بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جواب دیں