دنیا بھر میں گو کہ سست روی سے لیکن سیاست میں خواتین کی شمولیت بڑھ رہی ہے۔ اس کا اظہار کونسل آن فارن ریلیشنز (CFR) کے "ویمنز پاور انڈیکس” کے نئے ڈیٹا سے ہوتا ہے۔ یہ ایک انٹریکٹو ٹول ہے جسے فروری 2020ء میں شروع کیا گیا تھا اور یہ سہ ماہی بنیادوں پر اقوامِ متحدہ کے رکن 193 ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے کہ وہاں سیاسی نمائندگی کے لحاظ سے صنفی مساوات میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے۔
گزشتہ موسمِ خزاں کے بعد ہونے والے اس تازہ اپڈیٹ میں تین ممالک نے نمایاں پیش رفت کی ہے۔ ایک تو امریکا ہے کہ جس نے 2020ء کے انتخابات کے بعد اپنے اسکور اور درجہ بندی دونوں میں بہتری کی ہے اور 128 ویں سے 43 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے صنفی توازن کے وعدے پورے کیے ہیں اور ان کی آمد سے کابینہ میں خواتین اراکین کی تعداد 17 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 47 فیصد ہو چکی ہے جبکہ ابھی کابینہ میں دو عہدے باقی ہیں۔ امریکی کانگریس میں بھی خواتین اراکین کی تعداد ریکارڈ 27 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب یورپ میں بیلجیئم میں وزیر اعظم الیگزینڈر ڈی کرو کی زیر قیادت ایک تاریخی کابینہ تشکیل دی گئی ہے کہ جس میں چھ مرد اور آٹھ خواتین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیلجیئم 32 ویں سے 13 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
پھر لتھووینیا میں نو منتخب خاتون وزیر اعظم انگریدا سمونیتے نے ایسی کابینہ منتخب کی ہے جس میں تقریباً برابری کی بنیاد پر خواتین کی شراکت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک درجہ بندی میں 29 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔
کوسٹا ریکا اور روانڈا بدستور ابتدائی دونوں نمبروں پر موجود ہیں جبکہ ان کے بعد آئس لینڈ، سوئیڈن، فن لینڈ، نکاراگوا، انڈورا، ناروے، میکسیو اور نیوزی لینڈ ٹاپ 10 کو مکمل کرتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں 22 ممالک ایسے ہیں جن میں خواتین حکمران ہیں اور ایسا 2019ء کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔ البتہ 193 میں سے صرف 13 ممالک ایسے ہیں کہ جہاں قومی کابینہ میں کم از کم 50 فیصد اراکین خواتین ہیں جبکہ صرف 3 ملکوں میں قومی قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی کم از کم 50 فیصد ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران بیلجیئم، بولیویا، سوئٹزرلینڈ سے خواتین کی حکومتیں ختم ہوئیں ہیں جبکہ اسٹونیا، لتھوونیا، مالڈووا، تنزانیہ اور ٹوگو میں خواتین نے حلف اٹھائے ہیں۔ اسٹونیا میں تو ریاست اور حکومت دونوں کی سربراہ خواتین ہیں۔
ان تمام حوصلہ افزا خبروں کے باوجود دنیا میں خواتین کو برابر کی نمائندگی ملنے کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ اس وقت بھی عالمی اسکور 26.9 سے 27.5 تک ہی پہنچا ہے جبکہ 100 نمبرز صنفی مساوات کو ظاہر کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این ویمن کا اندازہ ہے کہ اگر سیاست میں صنفی مساوات کا عمل اسی رفتار سے جاری رہا تے برابر کی تعداد میں وزارتیں ملنے میں سال 2077ء اور قومی پارلیمان میں صنفی برابری میں سال 2063ء آ جائے گا۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں صنفی مساوات کی جانب سفر کیا جا رہا ہے، چند ممالک ایسے بھی ہیں کہ جہاں اس میں کمی آئی ہے۔ مثلاً انڈیکس پر رومانیہ کے 10 پوائنٹس کم ہوئے ہیں اور وہ یورپ میں آخری نمبر پر ہے کیونکہ اس کی کابینہ میں 21 اراکین میں سے صرف ایک خاتون ہیں۔
ستمبر 2020ء سے اب تک دیکھا جائے تو 88 ممالک میں خواتین کی نمائندگی بڑھی ہے اور 61 ممالک میں کم ہوئی ہے۔
اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو اس کا اسکور صرف 16 ہے، یعنی عالمی اوسط سے بھی کہیں کم اور یہی وجہ ہے کہ وہ 193 ممالک میں 138 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک خاتون حکمران رہی ہیں، بے نظیر بھٹو جنہیں دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ ملا۔ اس وقت پاکستان میں کابینہ میں خواتین کی نمائندگی 11 فیصد ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا میں 142 ویں نمبر پر ہے جبکہ قومی اسمبلی میں بھی 20 فیصد اراکین خواتین ہیں، یوں پاکستان کو 119 واں نمبر ملا ہے۔
بھارت کا کُل اسکور 36 ہے اور وہ دنیا میں 58 ویں نمبر پر ہے۔ ماضی میں یہاں اندرا گاندھی وزیر اعظم اور پراتھبا پٹیل صدر رہی ہیں۔ اس وقت بھارت کی کابینہ میں خواتین کی نمائندگی صرف 9 فیصد ہے یعنی اس معاملے میں یہ پاکستان سے بھی پیچھے ہے اور 193 ممالک میں 160 ویں نمبر پر ہے۔ قومی اسمبلی دیکھیں تو یہاں 13 فیصد کے ساتھ بھارت 157 ویں نمبر پر ہے۔ البتہ مقامی قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی 44 فیصد ہے، جس کی بدولت یہ دنیا میں 11 ویں نمبر پر آیا ہے اور یہی مجموعی اسکور میں اس کی بہتری کی وجہ ہے۔
جنوبی ایشیا کا تیسرا اہم ملک بنگلہ دیش 31 کے اسکور کے ساتھ 67 ویں نمبر پر ہے۔ یہاں خواتین بہت عرصے تک حکمران رہی ہیں۔ ماضی میں خالدہ ضیا اور اس وقت شیخ حسینہ واجد وزیر اعظم ہیں۔ شیخ حسینہ 2008ء سے مسلسل انتخابات جیتتی آ رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کابینہ میں خواتین کی نمائندگی صرف 8 فیصد ہے اور یہ دنیا میں 163 ویں نمبر پر آتا ہے۔ قومی اسمبلی میں 21 فیصد اراکین خواتین ہیں، جن کے ساتھ یہ 111 ویں نمبر پر ہے جبکہ مقامی قانون ساز اداروں میں خواتین کی تعداد 25 فیصد ہے، جن کی بدولت بنگلہ دیش دنیا میں 74 ویں نمبر پر ہے
جواب دیں