ایک لڑکی کی جانب سے اپنے خواب کی تعبیر پانے کی کوشش کا نتیجہ کراچی کی سڑکوں 200 سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو اپنی موٹر سائیکل خود چلانے کی صورت میں نکلا۔
مرینا کہتی ہیں کہ "میں ہمیشہ موٹر سائیکل چلانا چاہتی تھی، نجانے کون سی کشش تھی اس میں۔ میں ہمیشہ لڑکوں کو ان کی موٹر سائیکلوں پر دیکھتی اور خواہش کرتی ہے کہ ایک دن میں میں بھی چلاؤں۔ میں ہمیشہ مرد ساتھیوں اور بھائیوں سے پوچھتی رہتی کہ یہ چلتی کس طرح ہے، اسٹارٹ کرنے کے لیے کک کیسے لگائی جاتی ہے، اس کے مختلف فنکشن کیسے ہیں۔”
پھر انہوں نے بتایا کہ ایک روز ایک بوڑھے شخص نے، جو ان کے دفتر میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتے تھے اور انہیں روز ہی موٹر سائیکلوں کے گرد چکر کاٹتے دیکھتے تھے، انہیں ایک موٹر سائیکل پر تجربہ کرنے کا موقع دیا۔ "یہ ایک اسکوٹی تھی، جس میں گیئر نہیں ہوتے۔ مجھے بہت پسند آئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسے آزماؤ۔ یہ لڑکیوں کے لیے چلانا آسان ہوتی ہے۔”
پاکستان میں خواتین کے موٹر سائیکل چلانے پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ ملک بھر میں خواتین گاڑیاں بلکہ SUVs بھی چلاتی ہیں، اور لڑکیوں کے موٹر سائیکل چلانے کو عموماً برا بھی نہیں سمجھا جاتا بلکہ مسئلہ ان کے تحفظ کا ہے۔ گاڑیوں میں حادثے کی صورت میں اور ہراسگی سے بھی بہتر تحفظ مل جاتا ہے۔
’ترک ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن’ (ٹی آر ٹی) کی ایک رپورٹ کے مطابق 24 سالہ مرینا ایک افغان خاندان میں پیدا ہوئیں جو 1970ء کی دہائی میں روس کے افغانستان پر حملے کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گیا تھا۔ وہ چار بھائیوں کی اکیلی بہن ہیں اور مردوں کو ملنے والی رعایتوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن انہیں یقین تھا کہ وہ جو چاہتی ہیں کر سکتی ہیں۔
کراچی کی اکھڑ مزاجی اور کبھی حوصلہ نہ ہارنے والے رویّے کی بدولت مرینا نے انتظار نہیں کیا کہ کوئی خواتین کے لیے ایسا پلیٹ فارم بنائے کہ جہاں انہیں موٹر سائیکل چلانا سکھایا جائے، بلکہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ کام خود کریں گی۔
یہ محض جذبہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ضرورت تھی۔ مرینا کو گھر سے یونیورسٹی اور پھر ملازمت پر جانے کے لیے اپنے بھائیوں، یا کراچی کے تباہ حال پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم یا رکشے وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ یہ آزادانہ نقل و حرکت کی ضرورت تھی جس نے ان کی پہلی موٹر سائیکل خریدنے کی طرف رہنمائی کی، لیکن خفیہ طور پر۔
مرینا نے بتایا کہ "ہم ایک بڑے اپارٹمنٹ کمپلیکس میں رہتے ہیں، اس لیے میرے خاندان کو پتہ نہیں چلا کہ میں نے خفیہ طور پر اتنے پیسے بچا کر اپنی موٹر سائیکل خرید لی ہے۔ میں صبح موٹر سائیکل پر گھر سے نکلتی، یونیورسٹی اور پھر کام پرجاتی ہے اور پھر اسے گاڑیوں کے بیچ میں چھپا کر کھڑا کر دیتی تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے۔”
لیکن یہ راز بہت عرصے تک قائم نہیں رہ سکا۔ سب سے پہلے تو ان کے چار بھائیوں نے مخالفت کی، لیکن وہ ڈٹی رہیں۔ "گھر والوں نے کہا کہ لوگ کیا کہیں گے۔” لیکن ایک بھائی نے انہیں سپورٹ کیا۔ غضنفر اس وقت مرینا کو کراچی کے ایک لوئر مڈل کلاس علاقے میں ‘راؤڈی رائیڈرز موٹر سائیکلنگ اسکول’ چلانے میں مدد دے رہے ہیں۔ وہ ایک مقامی کرکٹ میدان میں یہ کام کرتے ہیں۔
مرینا نے بتایا کہ "جب ہم نے یہ کام شروع کیا تو پہلے چند مہینوں میں بمشکل پانچ لڑکیاں آئیں، کام کی ابتدا تو دھیمے انداز میں ہوئی لیکن پھر یہ پھیلتا چلا گیا اور زیادہ سے زیادہ خواتین موٹر سائیکل سیکھنے کے لیے آنے لگیں۔”
وہ ایک خاتون کو موٹر سائیکل سکھانے کے لیے 10,000 روپے لیتی ہیں، چاہے انہیں مکمل طور پر سکھانے میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ وہ نہ صرف چلانا بلکہ سڑکوں پر لے جانے کا اعتماد بھی دیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ "میری پہلی اسٹوڈنٹ ایک مڈل کلاس خاتون تھیں۔ ان کا کوئی بڑا مقصد تو نہیں تھا وہ صرف سیکھنا چاہتی تھیں۔ وہ بھی اپنے اردگرد مردوں کو موٹر سائیکلوں پر فراٹے بھرتے دیکھ کر بڑی ہوئی تھیں۔ میں پہلے انہیں سائیکل پر توازن قائم کرنا سکھاتی ہوں اور پھر اسکوٹی پر اور پھر گیئر والی موٹر سائیکل پر۔ میرا نہیں خیال کہ معاشرے میں اسے کوئی ممنوع سمجھا جاتا ہے یا کوئی مذہبی پابندی ہے کہ خواتین موٹر سائیکل نہ چلائیں۔ لیکن میرے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔”
مرینا بتاتی ہیں کہ "میں ایک اسٹوڈنٹ کو کبھی نہیں بھولوں گی، وہ مکمل نقاب میں اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھی اور اس کا شوہر چاہتا تھا کہ وہ سیکھے کہ موٹر سائیکل کیسے چلاتے ہیں۔ اس لیے میں نے اسے مکمل خود مختاری کے قابل بنایا کہ وہ ہمیشہ ادھر ادھر جانے اور چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے کسی کی راہ نہ دیکھتی رہے۔ جب اس نے موٹر سائیکل چلانا اچھی طرح سیکھ لی تو مجھے اپنی ایک تصویر بھی بھیجی۔ بہت خوشی ہوئی دیکھ کر۔”
اس کا ایک پہلو مالی طور پر جیب پر ہلکا پڑنے کا بھی ہے۔ پاکستان میں موٹر سائیکل کار کے مقابلے میں بہت معمولی قیمت پر آتی ہے۔ معاشی دباؤ نے بھی خواتین کو خود مختار ہونے پر مجبور کیا ہے اور معاشرے میں ‘واحد کفیل’ کا تصور بہت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
موٹر سائیکل چلانا سیکھنے کے بعد بھی یہ لڑکیاں ہمیشہ کے لیے نہیں چلی جاتیں۔ بلکہ راؤڈی رائیڈرز میں ہفتہ وار ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں۔ چھٹی کے دنوں میں مختلف ایونٹس میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے جس میں وہ شہر کے مختلف علاقوں میں موٹر سائیکل چلاتی ہیں۔
شگفتہ راؤ ایک گھریلو خاتون ہیں اور سلائی کا کام کرتی ہیں، وہ مرینا کی ابتدائی اسٹوڈنٹس میں سے ایک ہیں۔ شگفتہ کے لیے بچوں کو اسکول چھوڑنا سب سے بڑا مسئلہ تھا، جس میں دو گھنٹے لگ جاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ "مجھے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے کبھی کسی برے واقعے کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن ایک واقعہ ایسا ہے جو میں بھول نہیں پاؤں گی۔ میں اپنی موٹر سائیکل چلاتی ہوئی جا رہی تھی کہ ایک بزرگ کو سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا۔ جب انہوں نے مجھے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر یکدم رک گئے، جس کی وجہ سے میں ان سے ٹکرا گئی۔ شکر ہے زیادہ چوٹ نہیں لگی۔”
شگفتہ کہتی ہیں کہ "موٹر سائیکل سیکھنے کے بعد زندگی بہت بہتر ہو گئی ہے، اب تو اڑوس پڑوس کی خواتین بھی دروازہ بجا کر کہتی ہیں کہ ہمیں بھی ساتھ لے چلیں۔ بڑا مزا آتا ہے۔”
Pingback: امریکی موٹر سائیکلسٹ خواتین کا دورۂ پاکستان، مہمان نوازی پر حیران - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: خواتین کی مالیاتی شمولیت بڑھانے کا ہدف، 'اڑان' کے لیے 30 لاکھ ڈالرز کا سرمایہ - دی بلائنڈ سائڈ