وسطی کینیا کے سامبورو قبیلے میں خواتین کی حالت ناگفتہ بہ تھی، جب انہیں نئی زندگی اور اپنے مستقبل کے لیے امید کی ایک کرن نظر آئی، ایک ایسا گاؤں جہاں کسی مرد کو رہنے کی اجازت نہیں۔
اموجا نامی یہ گاؤں 1990ء میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ربیکا لولوسولی نے قائم کیا تھا، جنہیں عورتوں کے ختنے کے خلاف آواز اٹھانے پر اُن کی برادری نے نکال دیا تھا اور کئی مردوں نے انہیں مارا پیٹا بھی تھا۔ سامبورو قبیلے میں خواتین کو عموماً اس طرح کے ظلم و تشدد، جبری شادی، گھریلو تشدد اور ریپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کینیا کی ایک صنفی ماہر اورلین براسا کے مطابق اس گاؤں کی خواتین بہت غیر معمولی اور بہادر ہیں، جو اپنے حق میں کھڑی ہوئیں اور دنیا بدل دی۔ اس گاؤں کا اچھوتا خیال ہی ثابت کرتا ہے کہ خواتین کس طرح مل کر اپنے خلاف تشدد کو روک سکتی ہیں اور ان کا متحد ہونا کتنا ضروری ہے۔
ویسے سواحلی زبان میں اموجا کا مطلب بھی "اتحاد” ہی ہے۔
اس گاؤں نے یہ تاثر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق کی خلاف ورزی پر بھی خاموش رہنا چاہیے۔
دارالحکومت نیروبی سے 333 کلومیٹرز دُور واقع یہ گاؤں صحرا میں جانے والی سڑک کے کنارے پر واقع ہے، ایک ایسے تربیتی کیمپ کے قریب جسے کبھی برطانوی فوجی استعمال کرتے تھے۔ لولوسولی بتاتی ہیں کہ میں اور دیگر 15 خواتین اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں کیونکہ برطانوی سپاہیوں نے ہمارے ساتھ ریپ کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد تو ہمارے شوہر ہمیں غیرت کے نام پر قتل کر رہے تھے۔
بہرحال، اب یہ گاؤں تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین اور جبری شادیوں سے بچنے والی لڑکیوں کے لیے ایک پناہ گاہ بن چکا ہے۔ یہاں انہیں چھت بھی ملتی ہے، تحفظ بھی اور روزگار کے مواقع بھی۔ "اگر یہ گاؤں نہ ہوتا تو آج شاید میں زندہ ہی نہ ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ میرا ختنہ کر دیا جاتا اور کسی بڈھے کی تیسری بیوی بنا کر بیاہ دیا جاتا،” لوسی لیپر نے کہا۔ گو کہ کینیا میں عورتوں کا ختنہ غیر قانونی ہے لیکن سامبورو قبیلے میں اب بھی یہ عام ہے۔
اب یہ گاؤں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے، جہاں خواتین اپنی دست کاری فروخت کرتی ہیں جو ان کا بنیادی ذریعہ آمدنی بن چکا ہے۔ لولوسولی کہتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں کے لیے خوب محنت کرتے ہیں اور ہمارے پاس بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہیں۔
جو خواتین اپنے میکے واپس جانا چاہتی ہیں یا شادی کرنا چاہتی ہیں انہیں گاؤں چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے حقوق پر کبھی سودے بازی نہ کریں۔
مردوں کو اس گاؤں میں داخلے کی اجازت تو ہے لیکن وہ یہاں رہ نہیں سکتے۔
جواب دیں