صفیہ ابراہیم خیل سے ملیں، یہ افغان مہاجر ہیں جو پاکستان میں اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کر رہی ہیں۔
صفیہ کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب وہ اپنے اسکول کی کتابیں اور یونیفارم پکڑ کر زار و قطار رو رہی تھیں۔ تب پشاور کے مہاجر کیمپ میں ان کا دوسرا اسکول مسمار کیا گیا تھا۔ "میں سمجھ رہی تھیں کہ میری تعلیم کا خاتمہ ہو گیا اور سارے خواب ٹوٹ گئے۔”
لیکن کچہ گڑھی مہاجر کیمپ میں افغان والدین کے ہاں پیدا ہونے والی صفیہ کا داخلہ پھر نئے اسکول میں ساتویں کلاس میں ہوا۔ "یہ اسکول ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا اور میری ماں مجھے روزانہ صبح پیدل لے کر جاتی تھی۔” انہوں نے بتایا۔
کیونکہ تعلیم کا سلسلہ متاثر ہونے کا پھر بھی خدشہ تھا اس لیے انہوں نے ایک ٹیسٹ دینے کا فیصلہ کیا جو انہیں نویں کلاس میں پہنچتا دیتا۔ صفیہ اپنی تعلیم جلد از جلد مکمل کرنا چاہتی تھیں اور پھر صرف 13 سال کی عمر میں انہوں نے ہائی اسکول پاس کر لیا۔ ثانوی تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ بیٹھیں نہیں بلکہ مزید پڑھتی رہیں۔
آج وہ اپنی کامیابی کا سہرا خاندان اور اساتذہ کے سر پر باندھتی ہیں، جنہوں نے انہیں تحریک دی اور لڑکیوں کو پڑھانے کے معاملے میں روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنے میں مدد دی۔
پھر بھی صفیہ کا سفر رکاوٹوں سے پاک نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ "آگے سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا۔ چھوٹی تھی تو افغانستان کا نصاب پڑھتی تھی۔ کالج پہنچی تو زبان کے مسائل کا اندازہ نہیں تھا۔ بنیادی نوعیت کی اردو اور انگریزی تو آتی ہے لیکن وہاں ذرا زیادہ مہارت کی ضرورت تھی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے درخواست دینے کے سخت عمل سے بھی گزرنا پڑا کیونکہ کئی دستاویزات درکار تھیں۔”
بہرحال، 2014ء میں صفیہ اپنے خاندان کی وہ پہلی لڑکی بن گئیں جس نے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اب 25 سال کی عمر میں میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی گلوبل یوتھ ایڈوائزری کونسل کی رکن ہیں۔
اب وہ پاکستان کی جانب سے مہاجرین کو دی جانے والی اسکالرشپ کے تحت اسلام آباد سے ایم فل کر رہی ہیں ، جس کے بعد وہ ڈاکٹریٹ کرنا چاہتی ہیں اور ان کا خواب ہے افغانستان کی وزیرِ خارجہ بننا۔
"میں چاہتی ہوں کہ پالیسی سازی میں خواتین کا نقطہ نظر بھی سامنے آئے۔ میں دکھانا چاہتی ہوں کہ جب کسی خاتون کو موقع دیا جاتا ہے اور قائدانہ حیثیت ملتی ہے تو وہ ایک وژن کو حقیقت کا روپ دیتی ہے۔” انہوں نے کہا۔
صفیہ کی داستان کروڑوں مہاجرین کے لیے مشعلِ راہ ہے، جو معیاری تعلیم کے حق سے عموماً محروم رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دنیا بھر میں اسکول کی عمر رکھنے والے 48 فیصد مہاجر بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے اور صرف 3 فیصد ایسے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے مرحلے تک پہنچتے ہیں۔
جواب دیں