مصر کی ایک عدالت نے ایک شخص کو تین نو عمر لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور منشیات رکھنے پر 8 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
21 سالہ احمد بسام زکی قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کا طالب علم تھا کہ جسے تین کم عمر لڑکیوں کو ہراساں کرنے پر 7 سال اور منشیات رکھنے پر مزید 1 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس سے پہلے وہ دسمبر میں دو خواتین کو ہراساں کرنے پر تین سال قید کی سزا بھی سن چکا ہے۔ یہ سزا اسے مصر کی سائبر کرائمز کے معاملات دیکھنے والی عدالت نے دی تھی۔ عدالت کے مطابق اس نے خواتین کو اپنی فحش تصاویر بھیجیں اور ان کی رضامندی کے بغیر ان سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
احمد بسام کا معاملہ نیا نہیں لیکن جب گزشتہ جولائی میں انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر "Assault Police” نامی اکاؤنٹس پر لگ بھگ 50 خواتین کے یہ دعوے سامنے آئے کہ زکی نے ان پر جنسی حملے کیے، ہراساں اور بلیک میل کیا بلکہ ایک خاتون نے ریپ کا بھی دعویٰ کیا۔ ان میں سے ایک کی عمر صرف 14 سال تھی۔
گو کہ احمد بسام کے خلاف شکایات پہلے سے کی جا رہی تھیں، لیکن سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا ہو جانے کے بعد پولیس نے 4 جولائی کو اسے گرفتار کر لیا۔ اس نے دورانِ حراست اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور یہ بھی قبول کیا۔
اس معاملے کے سامنے آتے ہی مصر میں #MeToo تحریک نے جنم لیا، جہاں خواتین کو بڑے پیمانے پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین کی قومی کونسل کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ان کے پاس صرف 5 دن میں 400 شکایات آئیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین پر تشدد کے حوالے سے تھیں۔
مصر میں نئی قانون سازی اور سوِل سوسائٹی کی تمام تر کوششوں کے باوجود سروے ظاہر کرتے ہیں کہ مصر میں تقریباً 60 خواتین خواتین کو عوامی مقامات پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواتین شرمندگی سے یا الٹا خود پر کوئی تنقید ہونے کے خوف سے اس معاملے پر بات کرنے سے گھبراتی ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ در حقیقت یہ تعداد کہیں زیادہ ہو۔
مصر کی پارلیمان نے اگست میں قانونی ترامیم کی تھیں، جس میں جنسی حملے کا نشانہ بننے والی خواتین کی شناخت چھپانے کی شق بھی شامل تھی۔ اس نے خواتین کو جنسی حملے رپورٹ کرنے کا حوصلہ دیا۔
جواب دیں