حالیہ چند سالوں میں جنوبی ایشیا میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جرائم کے واقعات بڑھنے کے بعد حکام نے سزائیں سخت تر کر دی ہیں اور نگرانی کے نیٹ ورکس بڑھا دیے ہیں جن میں چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔
رواں سال کے اوائل میں شمالی بھارت کے شہر لکھنؤ میں پولیس نے کہا تھا کہ وہ ایسے کیمرے لگائے گی جو چہرے کے تاثرات تک پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ کسی خاتون کو ہراساں تو نہیں کیا جا رہا، جبکہ پاکستان میں پولیس نے گینگ ریپ کے ایک واقعے کے بعد ایک موبائل سیفٹی ایپ لانچ کی ہے۔
لیکن ان ٹیکنالوجیز کا استعمال کہ جن کے جرائم میں کمی لانے کا کوئی ثبوت تک موجود نہیں، اور ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے بھی معاملہ گمبھیر ہو جاتا ہے، پرائیویسی کے ماہرین اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ خبردار کریں کہ بڑھتی ہوئی نگرانی خواتین کو مزید متاثر کرے گی۔
سال 2019ء میں بھارت میں خواتین کے خلاف سب سے زیادہ جرائم ریاست اتر پردیش میں پیش آئے کہ جس کے شہر لکھنؤ میں خواتین کے حقوق کی کارکن روپ ریکھا ورما کہتی ہیں کہ پولیس کو پتہ بھی نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کام بھی کرتی ہے یا نہیں۔ "پولیس کے ساتھ ہمارا جو تجربہ ہے، اس کی وجہ سے ہمیں یہ اعتماد نہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کو مؤثر اور بھرپور انداز میں استعمال کر بھی پائے گی۔ اگر اس ٹیکنالوجی کو بہتر انداز میں پیش نہیں کیا گیا تو اس سے ہراسگی کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ ایسی حرکتیں خود پولیس کی جانب سے ہوں گی۔”
لکھنؤ ان آٹھ شہروں میں سے ایک ہے کہ جو سیف سٹی پروجیکٹ نافذ کر رہے ہیں، جس کا مقصد عوامی مقامات پر خواتین کے لیے ایک "محفوظ، بے خطر اور خود مختار ماحول” بنانا ہے اور "محفوظ شہری بنیادی ڈھانچے اور پولیس تک مؤثر رسائی” کے ذریعے جرائم پر قابو پانا ہے۔
دلّی میں انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن سے وابستہ انوشکا جین کہتی ہیں کہ لیکن اس منصوبے – 100 اسمارٹ سٹی پروگرامز کے ساتھ جو خدمات کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرتے ہیں – سے نگرانی کا عمل غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گا۔ "حکام خواتین کے خلاف جرائم کا نام لے کر ان کی نگرانی کا عمل بڑھا رہے ہیں، لیکن CCTV اور چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی پر اتنے زیادہ اخراجات کا خواتین کے خلاف جرائم میں کمی سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔”
ان کا کہنا تھا کہ "خواتین کو اس طرح ہدف بنا کر دراصل حکام معاشرے میں نئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں کہ جہاں خواتین ویسے ہی گھروں میں کڑی نگرانی میں رکھی جاتی ہیں اور جن کے لیے عوامی مقامات پر بے نامی (anonymity) بہت ضروری ہے۔”
دنیا بھر میں کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) کی ٹیکنالوجیز کا عروج نے چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجیز کو مقبولیت دی ہے جو مجرموں کو پکڑنے سمیت مختلف کاموں میں استعمال ہو رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت میں ایسے اقدامات پولیس کو جدید تر بنانے اور معلومات کے حصول اور مجرموں کی شناخت کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے لازمی بنا کر پیش کیے جاتے ہیں۔
لیکن ٹیکنالوجی اور پرائیویسی کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے فوائد واضح نہیں ہے اور اس سے لوگوں کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے اور ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی واضح نہیں کہ اس سے حاصل کردہ ڈیٹا کیسے محفوظ کیا جائے گا، اس تک رسائی کسے حاصل ہوگی اور اس کا مقصد کیا ہوگا۔
ٹیکنالوجی کو بھی اپنی درستگی کی شرح کی وجہ سے بھی کئی مسائل کا سامنا ہے، خاص طور پر گہری رنگت رکھنے والی خواتین اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو پہچاننے کے حوالے سے۔
دلّی پولیس نے 2018ء میں بتایا تھا کہ اس نے چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی کے ایک سسٹم کا تجربہ کیا ہے اور اس کی درستگی کی شرح 2 فیصد تھی۔ وزارت خواتین و بہبودِ اطفال نے بعد ازاں بتایا کہ یہ سسٹم لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فرق بھی نہیں کر پایا۔
گوا میں ٹینڈم ریسرچ سے تعلق رکھنے والی اشالی بھنڈاری نے کہا کہ "ہمیں اس حل کے اثرات اور سماجی و تکنیکی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ڈجیٹل انفرا اسٹرکچر پر انحصار کرنے پر لازماً سوالات اٹھانا چاہئیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ خواتین کو غیر ضروری توجہ سے بچانے کے لیے جو عمل تجویز کیا جا رہا ہے وہ ڈجیٹل ٹیکنالوجی نیٹ ورک کے ذریعے ان پر ہر وقت کڑی نظر رکھنے کا ہے۔ یہ خواتین کو بااختیار بنانا نہیں، بلکہ اس خیال کو فروغ دینا ہے کہ خواتین کی حفاظت کے لیے ہر وقت اُن کی نگرانی ضروری ہے۔”
بھارت میں کم از کم 50 چہرہ پہچاننے کے سسٹمز موجود ہیں اور حکومت کا منصوبہ ہے کہ وہ ملک گیر نیٹ ورک بنائے گی۔ درجنوں شہر موبائل سیفٹی ایپس بھی متعارف کروا چکے ہیں۔ لیکن اسی حکومت کے ڈیٹا کے مطابق ہر 15 منٹ میں ریپ کا ایک واقعہ رپورٹ ہو رہا ہے اور خواتین کے خلاف جرائم 2009ء میں 2,03,000 سے تقریباً دو گنے ہو کر 2019ء میں 4,05,000 تک پہنچ چکے ہیں۔
امریکا اور یورپ میں چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی کے خلاف شعور بڑھ رہا ہے لیکن ایشیا میں اسے بڑے پیمانے پر لاگو کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے سیف سٹیز پروجیکٹ کے تحت لاہور، اسلام آباد، کراچی اور پشاور میں ہزاروں CCTV کیمرے لگائے گئے ہیں۔
2019ء میں گاڑیوں میں گھومنے والے جوڑوں کی ان کیمروں سے تصویریں لیک ہوئی تھیں، جبکہ اسی سال بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات نے بتایا کہ انہیں کیمپس کے CCTV کیمروں کے ذریعے نکالی گئی تصویروں سے بلیک میل اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال موٹر وے پر ایک گینگ ریپ کے واقعے کے بعد پنجاب پولیس نے ایک موبائل سیفٹی ایپ لانچ کی ہے جو کسی ہنگامی صورت حال میں پولیس کو ایک الرٹ بھیجتے ہی اس کی ذاتی معلومات جمع کرتی ہے۔ اس میں فون کے رابطوں اور میڈیا فائلز تک رسائی بھی شامل ہے جس کی وجہ سے خواتین خود ہراسگی کی زد میں آ جاتی ہیں۔
ڈجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پالیسی شمائلہ خان کہتی ہیں کہ ایسی ٹیکنالوجی جدت جو خواتین کو ‘تحفظ’ دینے کے لیے ان کی نگرانی بڑھائے بالکل وہی عمل ہے جو خواتین کی خاندان اور معاشرے کی جانب سے نگرانی میں نظر آتا ہے۔ خواتین کسی بھی حقیقی طریق کار اور شفافیت کے بغیر اپنی حفاظت کے بدلے میں پرائیویسی کا سودا نہیں کر سکتیں۔”
بھارت کے شہر چنئی، حیدر آباد اور دلّی دنیا میں سب سے زیادہ نگرانی کی زد میں رہنے والے شہروں میں شامل ہیں۔ چنئی میں فی مربع کلومیٹر میں 657 کیمرے لگے ہوئے ہیں جبکہ بیجنگ میں یہ 278 ہیں۔
لیکن دوسری جانب تعلیم اور خواتین پولیس افسران کی تعداد بڑھانے جیسے عملی اقدامات پر کچھ نہیں کیا گیا، کہ جو اب بھی پولیس فورس میں 10 فیصد سے بھی کم ہیں۔
جواب دیں