ڈجیٹل خواندگی کا مطلب ہے اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسے ڈجیٹل آلات اور سہولیات کا استعمال کر پانا۔ اس کے لیے بنیادی خواندگی بھی ایک شرط ہے اور ساتھ ہی عام کاروباروں میں استعمال ہونے والے بنیادی سافٹ ویئر مثلاً مائیکرو سافٹ ورڈ اور ایکسل وغیرہ بھی آنے چاہئیں۔ اب تو غیر رسمی کاروباروں میں بھی ان کا استعمال ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اب یہ ڈجیٹل دور ہے۔ ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بنیادی گرفت بھی ضروری ہے۔
لیکن پاکستان میں عالم یہ ہے کہ نصف سے زیادہ خواتین ناخواندہ یعنی ان پڑھ ہیں۔ اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ ان میں ڈجیٹل ڈیوائسز کا استعمال بہت محدود ہے۔ ایک فون کال کرنے کے لیے تو شاید اتنا پڑھا لکھا ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن ٹیکسٹ میسیجز بھیجنے، سمارٹ فونز کی بنیادی ایپس چلانے اور دیگر کاموں کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کے سماجی و معیارِ زندگی سروے 2018ء کے مطابق 2018-19ء میں 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کی صرف 26 فیصد پاکستانی خواتین ایسی تھیں جن کے پاس موبائل فون تھا۔ ان میں سے صرف 13 فیصد کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ میں ان کی انٹرنیٹ تک رسائی رہی جبکہ صرف 6 فیصد ایسی تھی کہ جن کے پاس کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ تھا۔
اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین ان مواقع سے محروم ہیں کہ جو ڈجیٹل ٹیکنالوجی پیش کرتی ہے۔ وہ اس میدان میں بہت سے کاموں کے لیے یا تو ڈجیٹل ناخواندہ ہیں یا ان کے پاس ایسی ڈیوائسز نہیں ہیں۔
اس مسئلے کے اثرات کتنے گمبھیر ہیں؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور اس دور میں ڈجیٹل ناخواندگی کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی حکومتیں خدمات کی فراہمی کے لیے ڈجیٹل ٹیکنالوجی پر بھروسہ کر رہی ہیں اور اپنے شہریوں کی سرکاری اداروں تک رسائی بہتر بنانے کے لیے ڈجیٹل میدان میں قدم رکھ رہی ہیں، پاکستان میں خواتین کا اس لحاظ سے پیچھے رہ جانا مایوس کُن ہے۔ بلکہ اب تک جو اقدامات اٹھائے بھی گئے ہیں وہ خواتین کے لیے نہیں ہیں۔
مثلاً ملک میں شہریت کی بنیادی دستاویز شناختی کارڈ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 24 فیصد بالغ خواتین کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں ہے۔ مقامی روایات خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہیں، اس لیے وہ اُن سرکاری دفاتر میں نہیں جا سکتیں جو یہ دستاویز جاری کرتے ہیں۔
پاکستان میں شناختی کارڈ اور دیگر معاملات کا ذمہ دار نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) ہے۔ یہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے اجرا اور تجدید کے لیے آن لائن درخواست بھی قبول کرتا ہے لیکن اس کا استعمال کرنے کے لیے بھی خاتون کو نہ صرف انٹرنیٹ تک رسائی درکار ہے بلکہ اس کا پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری ہے۔ اسے یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ آن لائن فارم کس طرح بھرتے ہیں اور تصویر کیسے اپلوڈ کرتے ہیں۔
یہ معاملہ اس لیے بھی زیادہ پیچیدہ ہے کہ نادرا کی پوری ویب سائٹ انگریزی زبان میں ہے اور اس میں قومی زبان یا دیگر مقامی زبانوں کی کوئی سہولت نہیں۔
خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے جو سرکاری پروگرامز شروع کیے گئے ہیں، انہیں بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کا نمایاں ترین سماجی تحفظ کا پروگرام "احساس” ہے۔ یہ غریب ترین گھرانوں کی خواتین کو چھوٹے موٹے قرضے اور ساتھ ہی مشروط یا غیر مشروط گرانٹس دیتا ہے۔ اس پروگرام کو آگے بڑھانے اور مزید مؤثر بنانے کے لیے "احساس” کی ویب سائٹ بھی موجود ہیں، جہاں اس پروگرام کے ڈھانچے، درخواست دینے کے طریقہ کار اور اہلیت کے معیار سمیت سب کچھ موجود ہیں لیکن یہ بھی انگریزی زبان میں ہے۔
یعنی ڈجیٹل خواندگی محض عام خواندگی کا نام نہیں بلکہ یہ زیادہ جامع تعلیم ہے اور مستقبل میں خواتین کے آگے بڑھنے کے لیے اس کا ہونا بہت ضروری ہے۔
Pingback: شناختی کارڈ، اب شادی کے بعد خواتین کے لیے نام بدلوانا ضروری نہیں - دی بلائنڈ سائڈ