دنیا کے کئی ملکوں میں ایسی خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے کہ جو نہ پڑھ سکتی ہیں اور نہ لکھ سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کیریئر میں کم مواقع ملتے ہیں اور وہ اپنے حقوق سے بھی ناواقف ہیں۔ تعلیم کی کمی کا حتمی نتیجہ صنفی امتیاز ہے اور اس سے حالات جو رُخ لیتے ہیں اس سے مزید امتیاز پیدا ہوتا ہے اور یہ چکر چلتا رہتا ہے، خاص طور پر پاکستان میں کہ جہاں یہ ہر جگہ اور ہر شعبے میں نمایاں ہے۔
پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے جن میں سے تقریباً آدھی خواتین ہیں۔ جنوبی ایشیا کی طرح صنفی عدم مساوات یہاں بھی موجود ہیں، بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے حالیہ ‘جینڈر گیپ انڈیکس’ کے مطابق پاکستان صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کے 153 ممالک میں 151 ویں نمبر پر آتا ہے، یعنی پوری دنیا میں پاکستان سے بدتر ممالک صرف 2 ہیں۔ اس میں معیشت، تعلیم، کے حصول، صحت کی سہولیات اور سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کے حوالے سے مردوں اور خواتین میں فرق دیکھا جاتا ہے۔
خواتین میں تعلیم کی کمی کی ایک وجہ انہیں کم تر سمجھنا ہے اور یہی ان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومتِ پاکستان کے 2018ء سے 2019ء کے درمیان کیے گئے ایک سروے میں پایا گیا ہیں 10 سال یا اس سے زیادہ عمر کی صرف آدھی خواتین اور لڑکیاں ایسی ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی اسکول کا منہ دیکھا ہے۔ اس لیے خواتین میں بنیادی خواندگی کی شرح میں اتنی کمی حیران کُن نہیں ہے۔ اس کے اثرات بہت مایوس کُن ہیں، خاص طور پر ڈجیٹل ٹیکنالوجی کے اس دور میں جو مواقع میسر ہیں، خواتین ان کا فائدہ بھی نہیں اٹھا پا رہیں۔
پاکستان میں 10 سال یا اس سے زیادہ عمر کی صرف نصف خواتین ایسی ہیں جو ملک کی کسی بھی زبان میں لکھ یا پڑھ سکتی ہیں۔ یہ شرح نوجوان نسل میں بھی اتنی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ سروے کے مطابق 15 سے 24 سال کی 64 فیصد خواتین ہی لکھ یا پڑھ سکتی ہیں۔ یہ تناسب بھی پنجاب اور شہری علاقوں میں ہونے والی پیشرفت کی بدولت ہے ورنہ بلوچستان میں تو نوجوان خواتین میں شرحِ خواندگی صرف 32 فیصد اور خیبر پختونخوا اور سندھ میں بالترتیب 50 اور 55 فیصد ہے۔
تعلیم کی کمی خواتین کی باضابطہ افرادی قوت میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے اور جو بہت عرصے سے ایک جمود کا شکار ہے۔ کم تعلیم ہونے اور مہارت و تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو اچھی ملازمتیں نہیں مل پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر خواتین جو کام کرتی ہیں وہ غیر رسمی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کو بہت معمولی آمدنی حاصل ہوتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں عموماً کھیتوں میں روزمرہ کا کام ہوتا ہے اور شہری علاقوں میں ناخواندہ عورتیں کو زیادہ تر گھریلو ملازمہ کا کام ہی ملتا ہے۔ یہاں وہ جو کماتی ہیں وہ ان کے لیے کافی نہیں ہوتا، وہ اس سے نہ بچت کر سکتی ہیں اور نہ کوئی اثاثہ بنا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خاندان کے کسی مرد پر انحصار کرتی ہیں، جو اس سے زیادہ کماتا ہے کیونکہ وہ بہتر تعلیم اور بہتر مہارت رکھتا ہے۔
مرد پر یہی انحصار خواتین پر ظلم و تشدد کی ایک وجہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2017ء سے 2018ء کے دوران 15 سے 49 سال کی 28 فیصد خواتین کو گھر پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ گھریلو تشدد دیہی علاقوں میں زیادہ ہے، اور آپ بالکل ٹھیک سمجھے ہیں کہ ان علاقوں میں سب سے زیادہ ہے جہاں خواتین میں شرح خواندگی سب سے کم ہے۔ مثلاً بلوچستان میں یہ شرح 48 فیصد ہے اور خیبر پختونخوا میں 43 فیصد۔
دراصل ناخواندہ خواتین اپنے خاندان پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں اور اگر مرد ظالم ہو تو اس کے چنگل سے نکل نہیں سکتیں۔ ساتھ ساتھ وہ خواتین کے کردار کے حوالے سے بھی ایک روایتی تصور رکھتی ہیں جس کی وجہ سے اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہوتیں جو قانوناً انہیں حاصل ہوتے ہیں اور اگر آگہی ہو بھی تو عدالت جانے کے ذرائع اور وسائل نہیں رکھتی۔
پاکستان کے قوانین ایسے ہیں جو خواتین کو کافی اختیارات دیتے ہیں۔ مثلاً نکاح نامے کو ہی لے لیں جس پر دلہا اور دلہن کے دستخط ضروری ہیں اور اس کے ساتھ شوہر اور بیوی کے حقوق لاگو ہو جاتے ہیں۔ اس میں ایک شق ایسی ہو جو خاتون کو طلاق کا حق بھی دیتی ہے۔ اگر خاتون نکاح نامے میں واضح کرے تو اسے یہ حق بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر خواتین اس بارے میں نہیں جانتیں۔
ایک سروے کے مطابق پشاور میں 75 فیصد خواتین نے اپنی شادی کے وقت نکاح نامہ پڑھا ہی نہیں تھا۔ پنجاب میں تو 35 فیصد نکاح ناموں میں خاتون کو طلاق کا حق تفویض کرنے کی شق ہی ہٹا دی گئی۔ ناخواندگی اور قانون شعور نہ ہونا دونوں اس چکر کے چلتے رہنے کا سبب ہیں۔
اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے مستقبلِ قریب میں خواتین میں خواندگی بہتر ہونے کے کوئی روشن امکانات نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں آج بھی تقریباً 30 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے اور ان میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے جو یا تو سرے سے ہی اسکول نہیں جاتیں یا جلد ہی نکال لی جاتی ہیں۔ 5 سے 9 سال کی صرف 51 فیصد لڑکیاں ہی پرائمری اسکول کا منہ دیکھ چکی ہیں جبکہ ثانوی اور اعلیٰ درجے کی تعلیم کے اعداد و شمار کی تو بات ہی نہ کریں، جو بہت بھیانک ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی حالت زار میں تبدیلی کے لیے کسی بھی کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے ترجیح خواندگی یعنی تعلیم کو دینا ہوگی۔
Pingback: راولپنڈی میں خواتین کی تیسری یونیورسٹی کا افتتاح - دی بلائنڈ سائڈ