لڑکیوں کا آف لائن اور آن لائن تعاقب، نارمل سمجھا جانے والا گھٹیا رویّہ

انگریزی میں stalking کی اصطلاح کسی لڑکی کا تعاقب کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہ ایک طرح کی ہراسگی ہوتی ہے۔ اب جبکہ انڈین پریمیئر لیگ (IPL) کا نیا سیزن شروع ہونے والا ہے تو ماضی میں اس کے ایک بھیانک پہلو پر بات کرنے کا وقت بھی آ گیا ہے۔

یہ 5 مئی 2019ء کو رائل چیلنجز بنگلور اور حیدرآباد سن رائزرز کا ایک میچ تھا، جس کے دوران 5 سیکنڈوں کے لیے کیمرا ایک لڑکی پر رہا جس نے بنگلور کی حمایت میں لال رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

صرف 5 سیکنڈوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا بھارت اس مشن پر نکل پڑا کہ یہ لڑکی کون ہے؟ سوشل میڈیا صارفین نے ٹوئثر سمیت ہر پلیٹ فارم کو کھنگال ڈالا اور بالآخر اسے انسٹاگرام پر جا لیا۔ یوں نہ صرف اس کی شناخت ظاہر کی بلکہ یکایک وہ لڑکی پوری دنیا کے سامنے آ گئی۔ اس لڑکی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس وقت آدھی دنیا اس کا پیچھا کر رہی ہے۔

پہلے ہی دن اس لڑکی کو انسٹاگرام پر ڈیڑھ لاکھ فالوورز ملے۔ اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے بلکہ وہ اس شہرت سے خوش تھی اور اپنے تعارف میں #theRCBgirl نامی ٹیگ بھی لگایا۔

لیکن یاد رکھیں stalking کبھی بے ضرر نہیں ہوتی۔ بالآخر "وائرل” ہونے کے 10 دن بعد اس لڑکی کی ایک وڈیو منظرِ عام پر آئی جس میں اس نے پہلے تو اتنا پیار ملنے پر شکریہ ادا کیا اور پھر بتایا کہ وہ لوگوں کے منفی رویّے سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور یہ سب ذہنی استحصال، صدمے بلکہ ذہنی تشدد کا سبب بنا ہے۔

اس نے بتایا کہ "میں کوئی مشہور شخصیت نہیں ہوں، ایک عام سی لڑکی ہوں جو میچ سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ جو توجہ مجھے ملی میں ہر گز اس کی طالب نہیں تھی۔ لیکن جس طرح اجنبی لوگوں نے مجھے انٹرنیٹ پر تلاش کیا، بلکہ شکار کیا اور میری شناخت پوری دنیا کے سامنے لائے، اس پر میں اب بھی کنفیوز ہوں کہ آخر میری پروفائل اور نام کا پتہ کیسے چلا؟ لیکن میری شناخت، میری پرائیویسی اور میری زندگی ایک لمحے کی وجہ سے ہیک ہو گئی۔”

اس نے بتایا کہ اسے کتنی نفرت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ راتوں رات آنے والے فالوورز میں بیشتر مرد تھے جنہوں نے بدتمیزی، بدتہذیبی، بد اخلاقی اور بے ادبی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے بھی زیادہ صدمہ اس بات کا ہوا کہ لڑکیوں کی طرف سے بھی نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ "آپ کس بے رحمی کے ساتھ کسی کے بارے میں اتنے گھٹیا الفاظ بول سکتے ہیں کہ جسے آپ جانتے تک نہیں۔”

"مجھے حیرت ہوئی کہ کس طرح میرے بارے میں خود ساختہ رائے قائم کی گئی اور پھر اس کی بنیاد پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک لمحے کے لیے سوچی کہ غیر معمولی توجہ سے ایک لڑکی کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ میں #theRCBgirl ضرور ہوں لیکن اس سے بڑھ کر اور بھی کچھ ہوں۔”

یہ اجتماعی stalking بلکہ ہراسگی کا سامنا کرنے والی واحد لڑکی نہیں تھی۔ پچھلے سال 2020ء میں 22 اکتوبر کو ہونے والے ایک میچ میں بھی تقریباً ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ جس میں کیمرا مین نے میچ کے اہم ترین لمحات میں ایک تماشائی لڑکی پر فوکس کر لیا اور میچ کے بعد اب اس لڑکی کی تلاش شروع ہو گئی اسے "2020ء مسٹری گرل” کا نام دیا گیا۔

آخر بھارت میں ایسا رویہ کیوں پایا جاتا ہے؟ سب سے پہلے گھر میں لڑکوں کی تربیت نہ کرنا اور پھر بالی ووڈ۔ 1993ء کی مشہور فلم "ڈر” میں شاہ رخ خان نے ایک ایسے ہی stalker کا کردار ادا کیا تھا۔ دہائیاں گزر گئیں، طریقے بدل گئے لیکن رویے تبدیل نہیں ہوئی، stalking اب بھی موجود ہے بلکہ کہیں بڑھ گئی ہے۔ ایسی فلمیں دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ stalking معمول کی چیز ہے بلکہ ضروری ہے کیونکہ "ہیرو” اگر کسی لڑکی کا پیچھا کرتا ہے تو بالآخر اسے "اسٹاک ہوم سنڈروم” (فلمی نام پیار) ہو ہی جاتا ہے۔ فلمی صنعت نے ہی stalking کو رومانویت بخشی اور اس رویّے کو پروان چڑھایا ہے۔

شکر ہے اس سال تماشائیوں کو میدان میں آنے کی اجازت نہیں تو امید ہے اس سال کوئی لڑکی اس رویّے کی بھینٹ نہیں چڑھے گی۔

One Ping

  1. Pingback: پاکستان، خواتین کے خلاف بڑھتے آن لائن جرائم اور سرکاری سرد مہری - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے