دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا کو چلانے کی ذمہ داری اب خواتین کے ہاتھوں میں ہیں اور اب وہ اسے درست راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن، وزیر تجارت جینا ریمونڈو اور تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور کئی معاشی مشیران بھی خواتین ہی ہیں، جو کابینہ کی سطح کے عہدیداروں میں تقریباً 48 فیصد ہیں۔
یہ بڑی تبدیلی معاشی پالیسی کو بھی بدل رہی ہے – گزشتہ ہفتے جو بائیڈن نے 2.3 ٹریلین ڈالرز کا منصوبہ پیش کیا ہے اس میں سے 400 ملین ڈالرز "کیئر اکانمی” کے لیے بھی ہیں، یعنی گھریلو اور کمیونٹی کے کاموں کے لیے ہیں جو بچوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے کیا جاتا ہے اور عموماً خواتین کرتی ہیں۔ اس کام کو ماضی میں کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس منصوبے میں اربوں ڈالرز نسلی اور شہری-دیہی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے بھی مختص کیے گئے ہیں جو ماضی کی معاشی، تجارتی اور مزدور پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ ییلن کہتی ہیں کہ "انسانی انفرا اسٹرکچر” پر توجہ اور اس سے پہلے 1.9 ٹریلین ڈالرز کا ریسکیو بل خواتین کے حالات میں کافی بہتری لائے گا کیونکہ ان کا حصہ وبا کی آمد سے پہلے ہی 40 سال کی کم ترین سطح پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ بالآخر یہی بل ان مسائل کو درست کرنا شروع کرے گا جو ہماری معیشت کو چار دہائیوں سے متاثر کر رہے ہیں۔ یہ محض ایک آغاز ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین رہنماؤں کی موجودگی معاشی پالیسی میں ایک نیا زاویہ نظر لا سکتی ہے۔
ہارورڈ بزنس اسکول کی پروفیسر اور "Reimagining Capitalism in a World on Fire” کی مصنفہ ربیکا ہینڈرسن کہتی ہیں کہ جب آپ باقی لوگوں سے مختلف ہوں تو آپ معاملات کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ آپ کا میلان ایک مختلف حل کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور اس وقت جس صورت حال کا ہمیں سامنا ہے، اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ہم ایک بڑے بحران کی زد میں ہیں اور ہمیں نئی سوچ کی ضرورت ہے۔”
گزشتہ نصف صدی کے دوران 57 خواتین اپنے ملکوں کی صدور یا وزرائے اعظم بنیں لیکن معاشی فیصلے کرنے والے ادارے اب تک زیادہ تر مردوں ہی کی گرفت میں ہیں۔ البتہ صورتحال بدل رہی ہے۔
امریکا سے باہر یورپین سینٹرل بینک میں کرستین لاگاردے ہیں، جن کے ماتحت 2.4 ٹریلین یورو کی بیلنس شیٹ موجود ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) میں کرستالینا جارجیوا ہیں جو 1 ٹریلین ڈالر کی لینڈنگ پاور رکھتی ہیں اور عالمی تجارتی تنظیم (WTO) میں اینگوزی اکونیو-اویالا ہیں۔ یہ سب وہ عہدے ہیں جن پر 10 سال پہلے مرد موجود تھے اور یہ کام وہی انجام دے رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق آج خواتین 16 ممالک میں وزارت خزانہ چلا رہی ہیں اور 14 مرکزی بینک بھی انہی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحرانی حالات میں خواتین پیچیدہ اداروں کو سنبھالنے کا بہتر ٹریک ریکارڈ رکھتی ہیں۔
کرستالینا جارجیوا نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ خواتین کی موجودگی ایک بہتر معیشت اور بہتر دنیا کی ضمانت ہے۔ وہ ایک ہبتر رہنما ہیں کیونکہ وہ دوسروں کا احساس رکھتی ہیں اور پسماندہ ترین طبقات کی بات کرتی ہیں۔ وہ فیصلہ ساز ہیں اور مفاہمت کی طرف زیادہ میلان رکھتی ہیں۔
امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کی ایک تحقیق بھی ظاہر کرتی ہے کہ جن امریکی ریاستوں میں خواتین گورنر ہیں وہاں کووِڈ-19 سے کم اموات ہوئی ہیں، ان ریاستوں کے مقابلے میں کہ جہاں گورنر مرد ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق خواتین مالیاتی اداروں میں سی ای اوز کے عہدوں پر صرف 2 فیصد ہیں اور ایگزیکٹو اراکین میں 30 فیصد، لیکن جو ادارے وہ چلاتی ہیں ان میں زیادہ مالیاتی لچک اور استحکام نظر آتا ہے۔
اس وقت عالمی وبا نے جہاں دنیا کو بُری طرح متاثر کیا ہے، وہیں اس کا خاص طور پر نشانہ خواتین بنی ہیں۔ عالمی افرادی قوت میں خواتین کا حصہ 39 فیصد ہے لیکن ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جتنے لوگ اس وبا کے دوران روزگار سے محروم ہوئے ہیں ان میں خواتین 54 فیصد ہیں۔ صرف امریکا میں ختم ہونے والے 1 کروڑ ملازمت مواقع میں سے نصف سے زیادہ کا شکار خواتین ہیں۔ 20 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں ایسی تھیں جو خواتین نے خود چھوڑیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق صرف ان خواتین کو واپس لانے سے ہی امریکا کی کُل مقامی پیداوار (GDP) میں 5 فیصد کا اضافہ ہوگا اور جاپان میں 9 فیصد، متحدہ عرب امارات میں 12 فیصد اور بھارت میں تو 27 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
جارجیوا کہتی ہیں کہ آئی ایم ایف نے ایسے اہداف مقرر کیے ہیں جو ملکوں کو صحت، تعلیم، سماجی تحفظ اور سالہا سال کی غفلت کے بعد بالآخر خواتین کو با اختیار بنانے کے اہداف پر کام کریں گے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عدم مساوات مزید بڑھنے کا خطرہ ہوگا۔
جواب دیں