خاتون مصری کپتان، جن پر نہرِ سوئز بند کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا

گزشتہ مہینے نہرِ سوئز میں ایک دیوہیکل بحری جہاز ‘Ever Given’ پھنس گیا، جس نے دنیا کے اس اہم ترین بحری راستے کو بند کر دیا۔

تب مروہ السلحدار کو پتہ چلا کہ آن لائن یہ افواہ پھیلی ہوئی ہیں کہ اس جہاز کے پھنسنے کا الزام ان پر لگایا جا رہا ہے۔

مروہ مصر میں کسی بھی بحری جہاز کی پہلی خاتون کپتان ہیں اور ان کے لیے یہ "خبر” کسی دھچکے سے کم نہیں تھی۔ نہرِ سوئز کی بندش کے وقت وہ سینکڑوں میل دُور اسکندریہ کی بندرگاہ کے قریب ایک بحری جہاز پر کام کر رہی تھیں۔

سوئز بحران میں مروہ کے کردار کے حوالے سے یہ جعلی خبر سوشل میڈیا پر ایک اسکرین شاٹ کی صورت میں پھیلائی گئی، جو ‘عرب نیوز’ کی ایک اصل خبر کی سرخی تبدیل کر کے بنایا گیا تھا۔ یہ خبر 22 مارچ کو اس معروف عرب اخبار میں شائع ہوئی تھی جس میں انہیں مصر کی پہلی خاتون کپتان بننے پر سراہا گیا تھا لیکن جعلی خبر میں انہیں اتنے بڑے واقعے کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا۔

یہ تصویر ٹوئٹر، فیس بک اور کئی دوسرے درجے کی ویب سائٹس کے ذریعے کئی بار نشر ہوئی اور کافی پھیلی۔ 29 سالہ مروہ کہتی ہیں کہ مجھے نہیں کہ یہ حرکت کس نے کی اور کیوں کی؟ شاید مجھے اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ میں ایک کامیاب کپتان ہوں یا پھر اس لیے کہ میں مصری ہوں، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ مروہ کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہو، وہ بھی اس شعبے میں جہاں مردوں کا غلبہ ہے۔ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں جہازوں پر کام کرنے والوں میں صرف 2 فیصد خواتین ہیں۔

مروہ کہتی ہیں کہ انہیں شروع ہی سے سمندر بہت پسند تھا اور جب ان کے بھائی عرب اکیڈمی فار سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ میری ٹائم ٹرانسپورٹ (AASTMT) میں گئے تو اُن کا شوق مزید بڑھ گیا۔ حالانکہ اس وقت AASTMT میں صرف مردوں کو قبول کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی درخواست دی اور انہیں واقعی شمولیت کی اجازت بھی مل گئی۔

شعبے میں تعلیم کے دوران انہیں ہر موڑ پر صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں کہ "جہاز پر خود سے بڑی عمر کے اور ہر ذہنیت کے لوگ ملے، ان میں سے ہم خیال لوگوں کو ڈھونڈنا اور ان حالات سے تنہا گزرنا بڑا مشکل تھا ۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی لڑکیوں کو اس شعبے کے قابل نہیں سمجھا جاتا کہ جس میں وہ اپنے خاندان سے دُور اتنے لمبے عرصے تک رہیں۔ لیکن جب آپ کو اس کام سے محبت ہو تو سب سے منظوری لینا ضروری نہیں ہوتا۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد مروہ فرسٹ میٹ کے عہدے پر فائز ہوئیں اور انہیں ‘آئیدا IV’ نامی بحری جہاز پر تعینات کیا گیا۔ وہ 2015ء میں نئی نئی توسیع شدہ نہرِ سوئز سے بحیثیتِ کپتان اس جہاز کو لے کر آئیں۔ یوں وہ اس نہر سے گزرنے والی کم عمر ترین اور پہلی خاتون مصری کپتان بن گئیں۔ 2017ء میں یومِ خواتین کی تقریب کے موقع پر مصری صدر عبد الفتاح سیسی نے انہیں سراہا تھا۔

لیکن نہرِ سوئز کی بندش کے اس واقعے کے بعد جو افواہیں پھیلیں، اس سے مروہ بہت پریشان ہوئیں۔ "یہ جعلی اسکرین شاٹ انگریزی زبان میں تھا جس کی وجہ سے یہ دوسرے ملکوں تک بھی پھیلا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ اس کی تردید کروں کیونکہ اس سے میری ساکھ متاثر ہو رہی ہے، اور ان تمام کوششوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے کہ جو میں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے کی ہیں۔ لیکن اس دوران کچھ لوگوں کے طرزِ عمل سے بڑا حوصلہ ملا۔ جب ایسے اسکرین شاٹس پر بیشتر تبصرے منفی تھے، کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے میری حمایت کی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایسے ہی لوگوں پر توجہ رکھوں گی۔ یوں میرا غصہ ٹھنڈا ہو گیا بلکہ تشکر کا احساس پیدا ہوا۔ پھر یہ بھی کہ میں کہیں زیادہ مشہو بھی ہو گئی۔

اگلے ماہ مروی سلحدار کا آخری امتحان ہے، جس کے بعد وہ فُل رینک کپتان بن جائیں گی اور انہیں امید ہے کہ وہ جہاز رانی کے شعبے میں خواتین کے لیے ایک مثالی کردار بنیں گی۔ "میں ان تمام خواتین سے کہنا چاہتی ہوں، جو اس شعبے میں آنا چاہتی ہیں، کہ جو آپ کرنا چاہتی ہیں اس کے لیے جدوجہد کریں اور منفی تاثرات کو آڑے نہ آنے دیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے