صنفی امتیاز اور ذات پات کے خلاف لڑنے والا بھارتی اخبار جو صرف خواتین چلاتی ہیں

شمالی بھارت کے دیہی علاقے کے ایک کچے مکان میں میرا دیوی چند خواتین کے قریب بیٹھی ہیں، جو بتا رہی ہیں کہ کس طرح چار افراد اُن کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ریپ کیا۔ "وہ جو چاہے کر سکتے تھے، وہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے اور اونچی ذات کے تھے۔ وہ قتل بھی کر سکتے تھے۔” ایک مظلوم خاتون نے میرا کو بتایا جو اپنے اسمارٹ فون پر ریکارڈنگ کر رہی تھیں۔ خاتون کا شوہر اس کے قریب فرش پر بیٹھا چہرے پر انتہائی کرب ناک تاثرات کے ساتھ یہ انٹرویو سن رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "وہ لہریا کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔”

منظر نئی دستاویزی فلم ‘Writing With Fire’ کا ہے، جو بھارت میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کے سب سے بڑے خبری ادارے ‘خبر لہریا’ نے بنائی ہے۔ یہ خواتین کے حوالے سے دیہی علاقوں کی خبروں پر توجہ دیتا ہے اور میرا دیوی اس میں چیف رپورٹر ہیں۔

اس دستاویزی فلم نے اِس سال کے مشہور امریکی سن ڈانس فیسٹیول میں ‘ورلڈ سینما ڈاکیومنٹری’ کے زمرے میں ‘آڈیئنس ایوارڈ’ جیتا ہے۔ اس کے لیے ہدایات بھارتی فلم ساز رنتو تھامس اور سشمت گھوش نے دی ہیں۔

خبر لہریا کا آغاز 2002ء میں شمالی بھارت کی ریاست اتر پردیش میں ہندی زبان کے ایک چھوٹے سے اخبار کی حیثیت سے ہوا۔ اس سے تعلق رکھنے والی اکثر صحافی دلت ہیں، جنہیں بھارت میں اچھوت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہندوؤں کے ذات پات کے نظام میں سب سے نچلی ذات ہے۔ اونچی ذات کے ہندو انہیں ناپاک اور انہیں چھونے تک کو گناہ سمجھتے ہیں۔

گو کہ بھارت کا آئین ذات پات کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز پر پابندی لگاتا ہے، لیکن اس کا وجود اب بھی موجود ہے۔ 2016ء کے ایک سروے کے مطابق بھارت کی دو ریاستوں اتر پردیش اور راجستھان کی دو تہائی دیہی خواتین اور تقریباً نصف مرد اب بھی چھوت چھات پر یقین رکھتے ہیں یا پھر ان کے خاندان کا کوئی ایک فرد ایسا ضرور کرتا ہے۔ یہ سروے امریکا کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا اور بھارتی ادارے ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار کمپیشنیٹ اکنامکس نے غیر دلت بالغ ہندوؤں میں کیا تھا۔ جو نتائج سامنے آئے، ان سے صاف ظاہر ہے کہ اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ کھانا کھانے تک سے انکار کر دیتی ہے یا انہیں اپنے باورچی خانے تک میں داخل نہیں ہونے دیتی کہ جسے ہندو گھرانوں میں ایک مقدس حیثیت حاصل ہے۔

چھوت چھات بھارت کے دیہی علاقوں میں اب بھی عام ہے کہ جہاں میرا اور ان کی ساتھی صحافی خواتین رہتی اور کام کرتی ہیں۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کو عموماً مار پیٹ کا سامنا رہتا ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات اپنی ذات سے باہر شادی کرنے پر اونچی ذات کے ہندو انہیں قتل تک کر دیتے ہیں۔ 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاً 10 دلت خواتین کا ریپ ہوتا ہے۔

جب سے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں، بشمول دلت، پر حملے کہیں بڑھ گئے ہیں، جس کی تصدیق ہیومن رائٹس واچ کی 2019ء کی رپورٹ سے ہوتی ہے۔ ابھی گزشتہ مہینے ہی معروف ریسرچ گروپ ‘فریڈم ہاؤس’ نے بھارت کو آزادی اظہار کے حوالے سے "آزاد” ممالک سے نکال کر "جزوی آزاد” ملکوں میں شمال کر دیا ہے۔ اس نے اقلیتوں پر حملوں اور ذرائع ابلاغ، دانشوروں، سول سوسائٹی کے اداروں اور مظاہرین کے آزادئ اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن کو اس کی وجہ بتایا ہے۔

یہ وہ ماحول ہے جس میں ‘خبر لہریا’ سے تعلق رکھنے والی خواتین صحافی کام کر رہی ہیں۔ ان کی یہ دستاویزی فلم پرنٹ سے ڈجیٹل میدان میں رکھا گیا پہلا قدم بھی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر رپورٹر بہت معمولی تعلیم رکھتی ہیں اور ان کی انگریزی بھی بنیادی نوعیت کی ہے جس سے وہ اسمارٹ فون وغیرہ استعمال کر لیتی ہیں۔ لیکن انہی اس سے کہیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے، جیسا کہ رپورٹنگ کے دوران بجلی کی بندش، سخت گیر اور جرائم پیشہ افراد کے سرپرست سیاست دانوں کے انٹرویوز کرنے جیسے چیلنجز۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب انہیں اپنے خاندانوں کی جانب سے شادی کرنے کے دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ بھارت میں خواتین سے بس ایک اسی کام کی توقع رکھی جاتی ہے۔

تو آخر اس صورت حال میں یہ خواتین صحافی کام کس طرح کر رہی ہیں؟ دستاویزی فلم کے آخر میں اس کا جواب دیتی ہیں کہ "جب آنے والی نسلیں ہم سے پوچھیں گی کہ جب ملک میں یہ حالات تھے اور ذرائع ابلاغ پر روک ٹوک تھی تو ہم کیا کر رہے تھے؟ تب ‘خبر لہریا’ فخریہ طور پر کہے گا کہ ہم صاحبانِ اقتدار کا احتساب کر رہے تھے۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے