خواتین کو چھیڑنے یا ان پر آوازے کسنے کو جرم قرار دیا جائے، جرمنی میں مہم عروج پر

"اوئے ہوئے! کہاں جا رہی ہو؟” "ارے دیکھ تو لو!” ” کیا چیز ہے یار!”، ایسے یا اس سے ملتے جلتے تبصرے، سیٹی بجانا، فحش اشارے کرنا ہو سکتا ہے کسی "مرد” کی نظر میں کوئی کمال کی بات ہو، لیکن خواتین کے لیے تو یہ کھلی ہراسگی ہے۔

آئینِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت کسی بھی خاتون کے وقار کو مجروح کرنا، اس پر کوئی جملہ کسنا، کوئی آواز نکالنا یا اشارہ کرنا، یا کسی بھی عوامی مقام پر، بازار، پبلک ٹرانسپورٹ، سڑک پر، پارک، نجی مجلس یا گھر میں اسے چھیڑنا، تین سال تک کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا سبب بن سکتا ہے۔

کسی اجنبی کی جانب سے خواتین کو چھیڑنا، یا ان پر آوازے کسنا، جنسی نوعیت کے یا نامناسب الفاظ پر مشتمل کوئی جملہ پھینکنا سرِ عام بھی ہوتا ہے اور انٹرنیٹ پر بھی۔ لیکن جرمنی میں اس پر کوئی سزا نہیں ہے اور ایک 20 سالہ طالبہ انتونیا کوئیل ایسے نئے قانون کے حق میں مہم چلا رہی ہیں جو اس عمل کو جرم قرار دے۔ اگست میں انہوں نے ایک آن لائن پٹیشن جاری کی تھی جس کی مخاطب وزارتِ انصاف اور وفاقی حکومت ہے۔ اس پر اب تک تقریباً 70 ہزار افراد دستخط کر چکے ہیں۔

انتونیا کوئیل

پٹیشن کے الفاظ ہیں "ہر مرد یہ حرکت نہیں کرتا، لیکن ہر عورت کو اس کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ چھیڑنا، جسے زبانی کلامی جنسی ہراسگی کہا جاتا ہے، تعریف کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ مرد کی جانب سے اپنی طاقت اور غلبہ کا اظہار ہے۔”

جرمنی میں زبانی کلامی جنسی ہراساں کرنا جرم نہیں ہے اور اسی پر اس پٹیشن کا زور ہے۔ قانون کے مطابق جنسی ہراسگی کے لیے جسمانی طور پر چھونا ضروری ہے۔ جرمنی کا قانون کسی کی سرِ عام تضحیک کرنے پر جرمانے کی صورت میں سزا تو دیتا ہے، یا پھر کسی خاص معاملے میں دو سال تک کی قید بھی، لیکن یونیورسٹی آف ہال-وٹن برگ کی آنیا شمٹ کہتی ہیں کہ "یہ وہ معاملات ہوتے ہیں جن میں میں زبان واضح طور پر تضحیک آمیز ہو۔ مثلاً جنسی طور پر حقارت آمیز جملے، جو خواتین پر یا تیسری جنس کے افراد پر کسے جائیں۔”

یعنی اگر کوئی "کیا فِگر ہے یار” تو اس پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہراسگی کے ضمن میں آئے گا نہیں کیونکہ قانون کے مطابق جسمانی طور پر چھونا ہی اسے ایک جرم بناتا ہے۔ شمٹ کہتی ہیں کہ یہ صورت حال تبھی واضح ہوگی جب خواتین کو چھیڑنے اور ان پر آوازے کسنے کو ایک الگ جرم قرار دیا جائے۔

کوئیل نے تجویز دی ہے کہ جرمنی فرانس کے نقشِ قدم پر چلے کہ جہاں کسی کو زبانی کلامی ہراساں کرنا 2018ء سے ایک فوجداری جرم ہے اور اس کی سزا 750 یورو تک کا جرمانہ ہے۔ پرتگال، بیلجیئم اور نیدرلینڈز میں بھی اسے جرم قرار دیا جا چکا ہے۔

فیڈریشن فار یورپین پروگریسو اسٹڈیز (FEPS) کے سروے کے مطابق، جرمنی میں ہر دو میں سے تین خواتین کو گزشتہ دو سال کے عرصے کے دوران چلتے پھرتے کم از کم ایک مرتبہ اس ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا ہے۔ 40 فیصد خواتین کسی کی جانب سے برا بھلا کہنا، لطیفے، جنسی تذلیل یا جنسی اشارے سہہ چکی ہیں۔ ایسی ہر تین میں سے ایک خاتون کی عمر 25 سال سے کم تھی۔

انتونیا کوئیل چاہتی ہیں جرمنی اس حوالے سے اپنے رویے میں تبدیلی لائے اور اس عمل کو غیر قانونی قرار دے۔

شمٹ کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں شواہد کو ہر مقدمے کے لحاظ سے الگ دیکھنا چاہیے۔ زبانی کلامی جنسی ہراساں کرنے میں گواہان اور ریکارڈنگ مدد دے سکتی ہے۔ آن لائن ہراسگی کے معاملے میں شواہد جمع کرنا زیادہ آسان ہے۔ لیکن شمٹ نے زور دیا کہ سب سے پہلے رویّوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ سرکاری عہدیداروں اور عدالتوں کو صنفی بنیاد پر اس طرح کے غیر جسمانی تشدد سے آگاہ ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ ایک ایسی ہی مہم اپ اسکرٹنگ یعنی کسی خواتین کا اسکرٹ اٹھانے جیسی گھٹیا حرکت کرنے والوں کے خلاف بھی کامیاب ہو چکی ہے۔ جرمن پارلیمان نے جولائی 2020ء میں اسے ایک باقاعدہ جرم قرار دیا اور اس کی سزا جرمانہ یا دو سال قید رکھی۔ اس کا آغاز بھی دو لڑکیوں کی جانب سے ایک آن لائن پٹیشن کے ذریعے ہوا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے