سخت قوانین اور سماجی شعور اجاگر ہونے کے باوجود پاکستان میں گھریلو تشدد تشویش ناک حد تک عام ہے۔
ہر تین میں سے ایک پاکستانی خاتون کو اپنے شوہر، سسرالیوں اور چند صورتوں میں تو اپنے بھائیوں اور والدین کے ہاتھوں بھی تشدد سہنا پڑا ہے۔ حقیقی اعداد و شمار سامنے آنے والے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ جب تشدد اتنے بڑے پیمانے پر عام ہوتا ہے تو اسے معمول کی بات سمجھ لیا جاتا ہے۔ ادارۂ شماریات کی ایک تحقیق کے مطابق ایک صوبے میں نصف سے زیادہ خواتین کا ماننا تھا کہ مخصوص حالات میں شوہر کے لیے بیوی کو مارنا قابلِ قبول ہے، اور کچھ ایسے ہی خیالات باقی ملک میں بھی پائے جاتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر آنے والی خبروں کے مطابق جنوری 2018ء سے اکتوبر 2020ء کے دوران پاکستان میں خواتین پر تشدد کے 51,241 واقعات پیش آئے۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو منظرِ عام پر آ گئے اور محض ان کی وجہ سے ہی پاکستان خواتین کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
پاکستان میں مردوں کا راج ہے، جس میں تمام امور مرد ہی کی گرفت میں ہوتے ہیں، چاہے وہ نجی معاملات ہوں یا عوامی اور اسے ایک غالب مقام حاصل ہے۔ خواتین کو کسی بھی معاملے پر اپنے انتخاب کا اختیار نہیں اور اسے سماجی و مالی طور پر مرد پر منحصر سمجھا جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں جو ثقافتی و مذہبی طور پر اصول بنا لیے گئے ہیں، ان کی بنیاد پر خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا رہتا ہے۔ تقریباً 70 سے 90 فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا رہا ہے۔ گھریلو تشدد میں اگر شوہر بچوں کے ساتھ بھی بدسلوکی کرے تو اس کے طویل میعاد ذہنی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایسے بچے ذہنی طور پر متاثر ہونے کی وجہ سے خود بھی بڑے ہو کر ظلم کرتے ہیں۔
جن خواتین کو گھریلو تشدد یا بد سلوکی کا سامنا ہوتا ہے وہ بھی ذہنی صحت کے مسائل کے خطرے سے دوچار ہوتی ہیں مثلاً ذہنی تناؤ، اضطراب، نشے کی لت اور خودکشی کے خیالات کا آنا۔
سوشل میڈيا کے آنے کے بعد ایسے کئی واقعات کی وڈيو بھی منظرِ عام پر آئی ہیں، جن سے خواتین کو درپیش حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔
ماضي میں پاکستان میں خواتین کو قانونی لحاظ سے بھی کئی دشواریوں کا سامنا تھا البتہ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی کے دوران کئی ایسے قوانین سامنے آئے ہیں جو کئی سلگتے ہوئے مسائل مثلاً کم عمری کی شادی، غیرت کے نام پر قتل، جنسی ہراسگی، گھریلو تشدد اور ریپ کے حوالے سے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے اورا سے اپنی ترجیح بنائے، کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جو پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
حقوقِ نسواں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد کی مذمت اور اس کے خاتمے کے لیے متعلقہ برادریوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے منبر اور علما کا کردار بہت اہم ہے جو اس حوالے سے صورت حال میں بہت فرق پیدا کر سکتا ہے۔
خواتین کے استحصال کے روکنے کے لیے حکومتوں نے کافی اقدامات اٹھائے ہیں۔ آئین کی شق 3 اور 11 خواتین کو کسی بھی قسم کے تشدد سے بچانے کو یقینی بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کی حالت زار پر قومی کمیشن بل 2012ء، قومی پالیسی برائے ترقی و خود مختاری خواتین 2002ء اور پنجاب تحفظِ نسواں ایکٹ 2016ء ایسے اقدامات ہیں جو خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے قانونی طور پر اٹھائے گئے ہیں۔
گزشتہ سال جولائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے سینیٹ میں گھریلو تشدد کے حوالے سے ایک بل پیش کیا تھا جس کے تحت گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے اور اس کے مرتکب افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ حال ہی میں وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی گھریلو تشدد کا سامنا کرنے کی صورت میں اطلاع دینے کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن کا آغاز کیا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان آگے بڑھ کر اس حوالے سے اقدامات اٹھائے اور معاشرے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ خواتین کے حق میں کھڑا ہو۔ کیونکہ اس حوالے سے قوانین بننے کے باوجود اب بھی متاثرہ خواتین کے لیے انصاف کے حصول میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ محض قوانین متعارف کروا دینا کافی نہیں ہے جبکہ عملی نفاذ نہ ہو اور صرف ہیلپ لائن بنانے دینے سے ریاست خواتین کے تحفظ کی ذمہ داری سے بری نہیں ہو جاتی۔ قانون کو مزید بہتر بنانے اور اس کی زبان سادہ و بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
اپنے شہریوں کو تحفظ عطا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کسی ریاست اپنے شہریوں کو ظلم و تعدی کے چنگل میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ملک کی معاشرتی لحاظ سے پائیدار اور جامع ترقی کے لیے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو ہر صورت روکنا ہوگا۔
جواب دیں