آئس لینڈ صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کا بہترین ملک ہے کہ جو مسلسل 12 ویں سال عالمی اقتصادی فورم کے انڈیکس میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔
یہ دُور دراز جزیرہ انڈیکس کے تمام زمروں میں بہترین کارکردگی دکھا رہا ہے، یعنی معاشی مواقع، تعلیم، صحت اور سیاسی قیادت اور اِس مرتبہ گزشتہ سال سے بھی بہتر کارکردگی دکھائی ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں پیش رفت تھم سی گئی تھی۔
فن لینڈ، ناروے، نیوزی لینڈ اور سوئیڈن اس فہرست میں صنفی مساوات کے لیے دنیا کے 5 بہترین ممالک میں شامل ہیں یعنی کہ یہاں اسکینڈے نیوین ممالک کا راج نظر آتا ہے۔ ان کے بعد افریقہ کے نمیبیا اور روانڈا چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہیں جبکہ لتھووینیا، آئرلینڈ اور سوئٹزرلینڈ ٹاپ 10 فہرست کو مکمل کر رہے ہیں۔
فورم کہتا ہے کہ مستقل بنیادوں پر صنفی تفریق پر نظر رکھنا اہمیت رکھتا ہے کیونکہ صنفی مساوات میں بہتری معیشت اور معاشرت کے فروغ کے لیے بہت اہم ہے۔ خواتین کی حوصلہ افزائی اور ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا دنیا بھر کی معیشتوں اور کاروباری اداروں کی نمو، مسابقت اور مستقبل کے لیے تیاری کو بڑھاتی ہے۔
رپورٹ میں فورم کی بانی کلاس شواب اور مینیجنگ ڈائریکٹر سعدیہ زاہدی لکھتی ہیں کہ "صنفی تفریق کے خاتمے کے لیے درکار وقت ناقابلِ قبول حد تک طویل ہے، اس لیے رہنماؤں کو کام کے مقام پر، اداروں میں اور مجموعی طور پر معاشرے میں بھی صنفی مساوات کو مستحکم کرنے میں پرانی اور نئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ان نئے چیلنجز سے نہ نمٹنا خواتین کے لیے معاشی مواقع کو طویل عرصے تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔”
مجموعی طور پر اس سال کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ پیش رفت تھم سی گئی ہے اور دنیا بھر میں سیاسی خود مختاری کے حوالے سے صنفی تفریق بڑھ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ شرح سے عالمی صنفی تفریق کے خاتمے میں تقریباً 136 سال لگ جائیں گے۔
ایک تحقیق کے مطابق صنفی حوالے سے پیش رفت کو کووِڈ-19 کی وبا نے بھی بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے سماجی و معاشی اثرات کا بوجھ خواتین کو زیادہ سہنا پڑے گا۔ حالات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے یکساں حقوق کی جدوجہد کی دہائیوں کی محنت ضائع ہو جائے۔
اس صورت حال میں آئس لینڈ کو ممتاز حیثیت ملنے کی وجہ ملک میں اعلیٰ ادارہ جاتی عہدوں پر خواتین کی موجودگی ہے کہ جو روایت کم از کم 50 سال سے موجود ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں سے تقریباً 24 سال تک سربراہِ مملکت کے عہدے پر خاتون رہی ہیں، جو بنگلہ دیش کے بعد سب سے زیادہ عرصہ ہے کہ جہاں خواتین 27 سالوں سے حکمران ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں 39.7 فیصد اراکین پارلیمان اور 40 فیصد وزرا خواتین ہیں۔ سینئر اور مینیجر کے عہدوں پر بھی خواتین بہت نمایاں ہیں جو سینئر عہدوں پر 41.9 فیصد اور بورڈ اراکین کی حیثیت سے 45.9 فیصد ہیں۔
دوسرے نمبر پر آنے والا فن لینڈ ناروے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس مقام تک پہنچا ہے۔ یہاں بھی خواتین کئی وزارتیں رکھتی ہیں اور 2019ء سے وزیر اعظم بھی خاتون ہیں۔ ملک میں سینئر اور انتظامی عہدوں پر بھی خواتین کی نمایاں تعداد موجود ہے جن میں 36.9 فیصد ہیں جو تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہیں۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے کیا کچھ کہا گیا ہے اور اس کے پڑوسی ممالک میں خواتین کی حالتِ زار کے بارے میں ہماری رپورٹ اس لنک پر دیکھیں۔
جواب دیں