خواتین کا مہینہ مارچ میکسیکو میں ‘جنریشن ایکوالٹی فورم’ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، ایک ایسے وقت میں جب کووِڈ-19 سے دنیا میں خواتین کی خود مختاری کو بدترین دھچکا پہنچا ہے۔ صنفی بنیادوں پر اموات اور تشدد میں اضافہ؛ آواز بلند کرنے والی خواتین پر بڑھتا ظلم؛ ڈجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی میں بڑھتی ہوئی صنفی تفریق؛ روزگار کے کم ہوتے مواقع؛ سرکاری معاملات اور فیصلہ سازی میں خواتین کی عدم شرکت؛ صحت کی سہولیات تک محدود رسائی؛ کم عمری کی شادیوں میں اضافہ؛ تعلیم تک رسائی میں مزید کمی؛ یہ وہ چند سلگتے ہوئے مسائل ہیں جن کی شدت میں گزشتہ ایک سال میں مزید اضافہ ہوا ہے اور دہائیوں سے صنفی مساوات کے لیے ہونے والی پیش رفت اب خطرے کی زد میں ہے۔ خواتین محض وبا سے صحت کے مسائل ہی سے نہیں نمٹ رہیں، بلکہ انہیں اس کے تباہ کن ثانوی اثرات کا بھی سامنا ہے۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں دنیا کے مختلف ممالک کی نمائندگی کرنے والی 49 خواتین سفیروں نے آواز بلند کیہے جن کا کہنا ہے کہ اب صورت حال ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے اور ان کا مقابلہ ہے کہ فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔
ان خواتین نے ایک مشترکہ اعلان میں کہا ہے کہ کووِڈ-19 کا ایک پہلو خواتین نرسوں، ڈاکٹروں، سائنس دانوں، صحت کے شعبے سے وابستہ کارکنان اور اس وبا کے خلاف لڑنے والی خواتین کا ہے جو اگلی صف میں موجود ہیں۔ قائدانہ حیثیت سے ان خواتین کے وژن نے وبا کے خلاف لڑنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے لیکن وہ انتظامی کمزوریوں اور تشدد اور بدسلوکی کی شکار بھی ہیں۔
اس صورت حال میں ساتھی کے ہاتھوں استحصال، بدسلوکی اور تشدد کی "وبا” الگ پھیلی ہے، جس کے خلاف سب کو جاگنا چاہیے۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر 3 میں سے 1 خاتون کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ معذور خواتین کو عام خواتین کے مقابلے میں جنسی تشدد کا خطرہ چار گُنا زیادہ ہوتا ہے۔ پھر اس وبا کے معاشرتی و معاشی اثرات کا سب سے زیادہ بوجھ بھی خواتین پڑے گا کیونکہ وہ زیادہ تر ایسے کام کرتی ہیں جن کی انہیں کوئی مالی ادائیگی نہیں ہوتی اور اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے، مثلاً سیاحت، ہوٹل، صحت اور تجارت میں۔
خواتین کی معاشرتی شراکت میں کمی کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ 2030ء تک پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے حصول میں تاخیر ہوگی۔ صنفی بنیاد پر آن لائن اور آف لائن تشدد خواتین کی جمہوری عمل میں مکمل اور یکساں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی مستقل بڑھ رہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین (CSW) نے دو مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے: صنفی بنیاد پر تشدد کے خلفا جنگ اور تمام سطح اور شعبہ جات میں خواتین کی مؤثر شراکت داری میں اضافہ۔ سیاست، اداروں اور عوامی زندگی میں خواتین کی سیر حاصل شمولیت انقلابی تبدیلی کے لیے اہم محرک ہے، جس سے معاشرے کو مجموعی طور پر فائدہ ہوگا۔ دنیا میں صرف چار ممالک ایسے ہیں جہاں کم از کم 50 فیصد خواتین موجود ہیں۔ عالمی سطح پر خواتین اراکینِ پارلیمان صرف 25 فیصد ہیں۔ خواتین آج صرف 22 ممالک کی سربراہان ریاست یا مملکت ہیں، اور 119 ممالک ایسے ہیں جہاں کبھی کوئی خاتون رہنما نہیں رہیں۔ یونیسکو کے مطابق 30 فیصد عالمی محققین خواتین ہیں۔ گو کہ صحت اور سماجی بہبود کے شعبوں میں خواتین کی افرادی قوت 70 فیصد ہے لیکن وہ صحت کے شعبے میں رہنماؤں میں صرف 25 فیصد ہیں۔
موجودہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ اگر ہم اسی شرح سے چلتے رہے تو اعلیٰ ترین عہدوں پر صنفی مساوات پانے میں مزید 130 سال لگ جائیں گے۔ یہ اعداد و شمار ناقابلِ قبول ہیں اور خواتین کے راستے میں مستقل رکاوٹیں ہیں۔
ان خواتین سفیروں کا کہنا ہے کہ بطور عورت تو ہم طاقت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں لیکن اقوام متحدہ میں سفیر کی حیثیت سے کہ جہاں اپنے ممالک کی نمائندہ ہیں، یہ وہ لفظ ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے ہم شرمائیں گی نہیں۔ طاقت معاملات کو بدلنے کی، عمل کرنے کی اور یکساں مواقع پانے کی۔ خواتین سفیروں کی حیثیت سے بھی ہم اقوامِ متحدہ میں کم ہیں – صرف 25 فیصد نمائندگان خواتین ہیں – لیکن ہم اذہان کو تبدیل کرنے کی بھرپور طاقت رکھتی ہیں۔ وہ وقت گزر چکا جب کہا جاتا تھا کہ خواتین کو اپنا مقام پانے کے لیے خود کو حقدار ثابت کرنا ہوگا۔
کئی معروف تحقیقی و سائنسی ادارے ناقابلِ تردید شواہد پیش کر چکے ہیں کہ فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کو شامل کرنے کی اہمیت کیا ہے۔ خواتین کی قیادت میں موجود ممالک نے وبا سے نمٹنے میں دوسرے ملکوں سے کہیں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ خواتین کی بھرپور شمولیت کے ساتھ کیے گئے امن عمل اور امن معاہدے زیادہ پائیدار اور جامع ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود امن عمل میں خواتین کی شراکت انتہائی کم ہے۔
افرادی قوت میں خواتین کو یکساں مواقع ملنے پر معیشت ارب ہا ڈالرز کے مواقع کھول سکتی ہیں۔ گزشتہ سال عالمی ادارۂ محنت (ILO) نے پایا کہ خواتین کو روزگار ملنے کی شرح مردوں کے مقابلے میں 26 فیصد کم ہے۔ 2020ء میں بھی خواتین کی جانب سے چلائے جانے والے ‘فوربس 500’ اداروں کی تعداد محض 7.4 فیصد ہے۔
Indeed, together we can lead the way for an inclusive and sustainable recovery #women power #gender equality#rights#justice; ending GBV @BangladeshUN1 @MAZappia @AminaJMohammed @UN_PGA @AmbAlyaAlThani @VRugwabiza @AudraPlepyte @aliekabba_SL @UN_Women https://t.co/4HOuIGutIR pic.twitter.com/aX4ED1Uwbq
— Rabab Fatima (@rababfh2016) March 31, 2021
عالمی سطح پر مرد کے ایک ڈالر کے مقابلے میں خواتین 77 سینٹ کماتی ہیں، جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی میں صنفی تفریق 2013ء میں 11 فیصد سے بڑھتی ہوئی 2019ء میں 17 فیصد ہو گئی، کم ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ 43 فیصد ہے۔ ماں کی حیثیت سے کردار نبھانے کی وجہ سے خواتین غیر رسمی اور جُز وقتی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں کے سست روی سے لیکن مستقل ہونے والے اضافے کو اب کووِڈ-19 نے دھچکا پہنچایا ہے ، جس کی وجہ سے لاکھوں خواتین افرادی قوت سے باہر ہو گئی ہیں۔
اس مسئلے کا حل خود بخود سامنے نہیں آئے گا اور نہ ہی کسی جادو سے ٹھیک ہوگا۔ ہمیں مثبت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں ڈیٹا درکار ہے جو جنس اور عمر سے بالاتر ہو کر کام کرے تاکہ ہمیں مسئلے کی شدت کا اندازہ ہو سکے؛ ہمیں خاص پالیسیوں اور سرمایہ کاریوں کی ضرورت ہے۔
ہمیں ظلم کی شکار خواتین کو بچانے کے لیے خدمات پیش کرنے، ان پر تشدد کو روکنے اور اس کے مرتکب ہونے والے کو ملنے والی کھلی چھوٹ کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں ڈجیٹل تقسیم کو کم کرنے اور خواتین کی معلومات تک رسائی کو بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔
وبا سے پہنچنے والے نقصان سے بحالی کے عمل میں صنفی مساوات کو لازماً ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ہمیں فیصلہ ساز اداروں کی تشکیل میں توازن قائم کرنا ہوگا۔ ہمیں خواتین کے لیے صحت کی خدمات کی دستیابی، رسائی، معیار اور تسلسل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، جس میں جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات بھی شامل ہیں۔ ہمیں خواتین کی روزگار کے مناسب مواقع تک رسائی دینا ہوگی اور انہیں خاندان اور کام میں توازن فراہم کرنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو اسکول لانا ہوگا، ان کی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا اور یقینی بنانا ہوگا کہ ہر لڑکی کو معیاری تعلیم ملے، کیونکہ اس سے خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی مساوات کی راہ ہموار ہوگی اور یہ خواتین کی آئندہ نسلوں کے لیے مؤثر عمل ہے۔ خواتین کی انصاف تک رسائی بھی بہتر بنانا ہوگی اور جنسی تشدد کے مرتکب افراد کو چھوٹ دینے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔
اس کے لیے رول ماڈلز کی ضرورت ہوگی۔ خواتین سفیر کی حیثیت سے ہم سمجھتی ہیں کہ دنیا کی لڑکیاں اور خواتین اُن کی طرح آگے بڑھ سکتی ہیں۔ کوئی کیریئر اور کوئی ہدف ان کی پہنچ سے دُور نہیں ہے اور نہ ہی صلاحیتوں سے بالاتر ہے۔
مساوات کے حصول میں مرد ہمارے ساتھی ہو سکتے ہیں اور ہیں بھی۔ ہماری نظریں صنفی مساوات کے حصول کے لیے پیش رفت کو تیز تر کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔ آئیے مل کر ایک جامع، یکساں اور عالمی سطح پر بحالی کے لیے کام کریں۔ اس نسل کو "جنریشن ایکوالٹی” بنائیں! اب وقت نہیں ہے کیونکہ ہم کووِڈ کے ہاتھوں بہت کچھ کھو چکے ہیں۔
جواب دیں