کراچی کا گرم موسم ہے اور صغریٰ رجب اپنا حجاب سنبھالنے اور جوتوں کے تسمے باندھنے کے بعد اگلے مقابلے کے لیے تربیت کا آغاز کر رہی ہیں۔
19 سالہ صغریٰ قومی ویمنز فٹ بال چیمپئن شپ میں اپنے شہر کوئٹہ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ ایک مہینے تک جاری رہنے والے اس ٹورنامنٹ میں کم از کم 500 خواتین شرکت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "میرے لیے یہ ایک کھیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔”
صغریٰ کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے ہے، جہاں ان کے لیے فٹ بال کھیلنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ شہر کی ہزارہ برادری کئی سالوں سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے لیکن یہ نوعمر کھلاڑی تمام تر مصائب کے باوجود مستقبل پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں صنفی مساوات کے لیے خواتین کی جدوجہد جاری ہے۔ عالمی اقتصادی فورم (WEF) کی تازہ ترین گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نمبر 153 ممالک میں 151 واں ہے اور صرف عراق اور یمن ہی اس سے پیچھے ہیں۔
اس صورت حال میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی فٹ بال چیمپئن شپ سے کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ اس قومی فٹ بال میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہیں سوشل میڈیا پر بدترین حملوں کا سامنا ہے اور کئی منتظمین ایسے ہیں جو چھپ کر کام کر رہے ہیں۔
لیکن صغریٰ اور ان کی ہزارہ کوئٹہ فٹ بال اکیڈمی کی 18 پلیئرز نہ صرف فٹ بال بلکہ خطروں سے کھیلنا بھی جانتی ہیں اور وہ فٹ بال کے ذریعے بہتر مستقبل کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ "صورت حال مایوس کن ضرور ہے۔ ہمارے علاقے میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جس میں کوئی شہید نہ ہو۔ لیکن ہمیں آگےبڑھنا ہے۔”
صغریٰ ہائی اسکول میں پڑھتی ہیں اور انہیں امید ہے کہ اسپورٹس اسکالرشپ پر انہیں کسی جامعہ میں داخلہ مل جائے گا۔ گو کہ ان کی ٹیم ٹورنامنٹ میں اب تک صرف ایک میچ جیت پائی ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہاں تو شرکت ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
فٹ بال کھیل کر رسم و رواج توڑنے والی صغریٰ ہی واحد کھلاڑی نہیں ہیں۔ انہی میں سے ایک 23 سالہ کرشما علی ہیں جن کا تعلق دُور دراز علاقے چترال سے ہے، خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔
کرشما اس وقت ملک کی سب سے متاثر کُن فٹ بال شخصیت ہیں۔ 2019ء میں انہیں پاکستان میں تب نمایاں مقام ملا جب معروف جریدے فوربس نے انہیں ’30 سال سے کم عمر 30 اہم شخصیات’ میں شامل کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ دوسرے ملکوں کے لوگ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے فٹ بال کھیلنا آسان نہیں۔ یہاں کی ثقافت بہت مختلف ہے، خاص طور پر چترال میں۔ جب میں ذرا مشہور ہوئی تو آن لائن مجھے کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
کرشما کے والدین چترال میں ایک اسکول چلاتی ہیں اور اس پوری جدوجہد میں ان کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان کا حوصلہ بڑھانے والے کہتے ہیں کہ بدحواس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ قدامت پسند علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جب صنفی قواعد و معیارات کو توڑتی ہیں تو انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ساری دھمکیاں خالی خولی نہیں ہوتیں۔ 2016ء میں چترال ویمنز اسپورٹس کلب کا آغاز کرنے والی کرشما کہتی ہیں کہ آپ ان دھمکیوں کو مذاق سمجھ کر ہوا میں اڑا سکتے ہیں، لیکن ہوشیار بھی رہنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تمام تر ردعمل کے باوجود ان جیسی خواتین کے لیے صورت حال نسبتاً بہتر ہے۔ "جب میں چھوٹی تھی تو میں فٹ بال نہیں کھیل سکتی تھی۔ لیکن جن لڑکیوں کے ساتھ اب ہم کھیلتے ہیں اور تربیت حاصل کرتے ہیں، جب وہ اپنے گاؤں کو جاتی ہیں، اپنی چھوٹی ٹیمیں بناتی ہیں اور کھیلتی ہیں تو انہیں دیکھنا بہت حوصلہ بڑھتا ہے۔”
پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے میڈیا مینیجر میر شبر علی کا کہنا ہے کہ چیمپئن شپ کا خیال خواتین کے کلبوں کے مابین زیادہ سے زیادہ مقابلوں کا انعقاد کرنا اور اس طرح ان کی مہارت کو مرحلہ وار بہتر بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ پاکستان میں خواتین کو مردوں جتنے مواقع حاصل نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ فیڈریشن آگے بڑھ کر مردوں اور خواتین دونوں کے لیے مقابلوں کی تعداد برابر کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ محض ایک آغاز ہے۔ ہم ایسا نظام بنانا چاہتے ہیں کہ جس میں مرد اور خواتین کھلاڑیوں کو یکساں ادائیگی ملے۔
Pingback: میدان میں کامیابیاں سمیٹتی اور صنفی مساوات کی جنگ لڑتی پاکستان کی فٹ بال اسٹار - دی بلائنڈ سائڈ