برازیل، وبا کا سب سے زیادہ بوجھ خواتین پر

برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں اسکول میں صفائی ستھرائی کے کام کے لیے 4,500 خالی آسامیاں پیش کی گئیں، ہدف تھا عالمی وبا سے متاثر ہونے والی خواتین بالخصوص ماؤں کو ان حالات میں معاشی طور پر مدد دینا۔

یہ منصوبہ وبا کے دوران خواتین میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے اور تعلیمی اداروں میں کووِڈ-19 کے حوالے سے قواعد و ضوابط کی پیروی میں مدد کرنے یعنی اسکولوں کو صاف ستھرا رکھنے اور طلبہ کا بخار وغیرہ چیک کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ لیکن حکام کو اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہوگا؟ صرف دو دنوں میں انہیں 90 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔

اس ردعمل سے ظاہر ہو گیا کہ برازیل میں خواتین، خاص طور پر ماؤں، کو اس وبائی بحران نے کس بُری طرح متاثر کیا ہے۔ خواتین بچوں کو گھر پر پڑھانے اور اپنی دیگر گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کی وجہ سے معاشی طور پر پریشان ہیں اور کچھ کو تو اپنا کیریئر بھی چھوڑنا پڑا جبکہ ایسی بھی ہیں جنہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔

برازیل کووِڈ-19 سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ لاطینی امریکا کا یہ سب سے بڑا ملک گو کہ عالمی آبادی کا 3 فیصد سے بھی کم رکھتا ہے لیکن اسے وبا کے دوران اوسطاً روزانہ 2,400 اموات کا سامنا کرنا پڑا ہے، یعنی دنیا بھر میں ہونے والی ایک چوتھائی اموات سے بھی زیادہ۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں صحت اور معیشت میں پیدا ہونے والا بحران افرادی قوت میں خواتین کی واپسی کو مزید تاخیر کا نشانہ بنائے گا۔ جیسا کہ دیکھا گیا کہ مندرجہ بالا ملازمتوں کے لیے فروری کے وسط میں جن خواتین کو رکھا گیا، صرف ایک ماہ بعد اسکولوں کی بندش کی وجہ سے وہ ایک مرتبہ پھر گھر پر بیٹھی ہیں۔

برازیل میں 1950ء کی دہائی سے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا لیکن 2000ء کے اوائل سے یہ رفتار سست ہوئی اور 2010ء سے تو ایک سطح پر تھم سی گئی ہے۔ وبا کے آنے سے پہلے ہی افرادی قوت میں خواتین 53 فیصد تھیں اور مردوں کی شرح 71 فیصد تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برازیل میں کام کرنے کے لیے خواتین کو سوچنا پڑتا ہے یا پھر وہ اپنے بچوں کو پالنے کے لیے ہمہ وقت کام نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خواتین کی اکثریت غیر رسمی شعبے یا چھوٹے موٹے کاموں سے تعلق رکھتی ہے۔

وبا نے ان حالات کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔ صرف گزشتہ ایک سال میں ملک میں 65 لاکھ سے زیادہ خواتین نے اپنے کام چھوڑے ہیں اور افرادی قوت میں ان کی شرح 48 فیصد سے بھی نیچے آ گئی ہے۔

وائرس نے ہسپتالوں کو بری طرح متاثر کیا اور یوں خواتین کو بھی کہ وہ صحت کے شعبے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ انہی میں سے ایک 26 سالہ تھاسی کروز ہیں، جو اپنی 8 سالہ بیٹی کے ساتھ اکیلے رہنے والی خاتون ہیں۔ یہ بچی ایک ایسے دائمی مرض کا شکار ہے کہ اگر اسے کرونا وائرس ہو گیا تو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کروز نے اپنی ملازمت چھوڑ دی کیونکہ وہاں کرونا وائرس کی زد میں آنے کا خطرہ زیادہ تھا۔ اب وہ بے روزگار ہیں اور اب تک جو بچت کی تھی، اسی سے گزر بسر کر رہی ہیں۔

دنیا بھر میں ورکنگ ویمن نے وبا کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ صرف امیر ترین اقوام کے سروے ہی کو دیکھ لیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کووِڈ-19 نے پچھلی ایک دہائی کی پیش رفت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ لاطینی امریکا اور کیریبین میں تو غربت کی وجہ سے وبا کے اثرات کہیں زیادہ ہیں۔ وہاں صورت حال اور زیادہ تر کاموں کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ لوگ گھر بیٹھے کام کر سکیں ۔

ماہرین کے مطابق برازیل میں صرف 2020ء کے دوران خواتین کی اوسط آمدنی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 6.2 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں مردوں یہ کمی 3.4 فیصد رہی۔ یہ فرق امیر ترین 10 فیصد حصے میں سب سے زیادہ دکھائی دیتا ہے کہ جہاں خواتین کی آمدنی میں 5.5 فیصد کی کمی آئی ہے اور مردوں میں صرف 0.4 فیصد کی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے