کووِڈ رسپانس، خواتین سب سے زیادہ متاثر لیکن قانون سازی کے عمل سے باہر ہیں

دنیا بھر میں صحت کے شعبے سے وابستہ افراد میں سے 70 فیصد خواتین ہیں اور کووِڈ-19 کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر بھی وہی ہوئی ہیں لیکن اقوام متحدہ کے ادارے ‘یو این ویمن’ کی سربراہ کے مطابق اس وبا کے خاتمے کے لیے فیصلہ سازی کے عمل سے ان کو باقاعدہ انداز میں باہر رکھا گیا ہے، یہاں تک کہ دنیا بھر کی سرکاری ٹاسک فورسز سے بھی۔

خواتین محض شعبہ صحت میں صفِ اول میں ہونے کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ غیر رسمی معیشت کے سکڑنے، گھریلو تشدد میں خطرناک حد تک اضافے اور اپنی گھریلو ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور ‘یو این ویمن’، اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور یونیورسٹی آف پٹس برگ کی صنفی عدم توازن پر ریسرچ لیب کی تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق وبا نے مزید 47 ملین اضافی خواتین کو انتہائی غربت میں دھکیل دیا ہے۔

ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ کووِڈ-19 کے خلاف اس وقت 137 ممالک میں 225 ٹاسک فورسز کام کر رہی ہیں، جن میں خواتین کی شرح صرف 24 فیصد ہیں۔ UNDP کے چیف آخم اشٹائنر کا کہنا ہے کہ کووِڈ-19 کے خلاف جنگ میں خواتین صفِ اول میں موجود ہیں، لیکن اس وبا سے کس طرح نمٹا جائے؟ اس کے لیے فیصلہ سازی کے عمل سے انہیں باقاعدہ باہر کیا گیا ہے۔

اس چشم کُشا ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ "اس امر کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری اداروں میں خواتین کی جامع اور بھرپور شمولیت ضروری ہے کہ ہونے والے فیصلے ان کی ضروریات کا بھی احاطہ کریں۔ یہ ایسے فیصلے ہیں جو آئندہ نسلوں کو بھی متاثر کریں گے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ کووِڈ-19 کے خلاف مؤثر اور بھرپور ردعمل کے لیے پالیسیوں اور منصوبوں میں "صنفی پہلو” لازماً شامل ہونا چاہیے۔

فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی عدم شمولیت سے اُن کی ضروریات نظر انداز ہو سکتی ہیں اور اس سے بحالی کا عمل غیر یکساں اور غیر متوازن انداز میں آگے بڑھے گا، جس سے صنفی مساوات پر ہونے والی دہائیوں کی پیشرفت خطرے سے دوچار ہو رہی ہے۔

اس پسِ منظر میں دیکھیں تو 32 ممالک نے صنفی حساسیت کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں اور UNDP اور ‘یو این ویمن’ نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ یکساں بنیادوں پر فیصلہ سازی کے اختیارات اور قائدانہ مواقع دے کر کووِڈ-19 کے خلاف اقدامات میں خواتین کی برابر کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔

‏’یو این ویمن’ کی سربراہ فومزیلے ملامبو انگوکا نے کہا ہے کہ خواتین کی بھرپور شمولیت کے بغیر اس شدید بحران سے نمٹنے کا خیال ناقابلِ فہم ہے۔ اس وقت خواتین کے بارے میں درست فیصلے لینے کا ناممکن ہدف مردوں کو دے دیا گیا ہے۔ اس میں فوراً سے پیشتر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل سب کے لیے یکساں، صنفی لحاظ سے بہتر اور ماحول دوست ہو۔

وبا کے حوالے سے پالیسیوں کا جائزہ لینے والے ‘کووِڈ-19 گلوبل جینڈر رسپانس ٹریکر ٹول’ کے مطابق مارچ 2021ء تک کووِڈ-19 کے حوالے سے 2280 مالیاتی، سماجی تحفظ اور لیبر مارکیٹ اقدامات میں سے صرف 13 فیصد خواتین کے معاشی تحفظ کے لیے ہیں۔ جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ان میں بھی خواتین ترجیح دینے کا عمل یا تو بہت محدود ہے یا پھر عارضی۔ مثلاً وبا کے ایک سال میں نقد رقوم دینے کے منصوبے اوسطاً صرف 3.3 مہینے جاری رہے۔

اقوامِ متحدہ کے اداروں نے زور دیا ہے کہ مالی پیکیجز میں خواتین کی بحالی کے لیے طویل مدت کے مخصوص اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ خواتین میں تشدد میں ہونے والے اضافے پر توجہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے