برطانیہ میں 23 مارچ 2020ء کو کرونا وائرس کی وجہ سے پہلی بار لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا اور گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں کم از کم 112 خواتین مردوں کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہیں۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف انتہائی مایوس کُن ہیں، لیکن خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ کووِڈ-19 کو مردوں کے انتہائی ظالمانہ رویّے کے لیے "معذرت” کے طور پر استعمال کیا جائے گا اور مجرموں کو نرم سزائیں دینے کے لیے لاک ڈاؤن کا بہانہ بنایا جائے گا۔ انہیں نظامِ انصاف میں بھی ‘عورت بیزاری’ کا کلچر در آنے کی علامات نظر آنے پر تشویش ہے کیونکہ عورتوں کو قتل کرنے والے مردوں کو ان خواتین کی نسبت کم سزائیں مل رہی ہیں کہ جو طویل عرصے تک گھریلو تشدد کا نشانہ بننے کے بعد اپنے دفاع میں مردوں کو قتل کرتی ہیں۔
‘کاؤنٹنگ ڈَیڈ ویمن’ نامی منصوبے کی بانی کیرن اسمتھ کہتی ہیں کہ جب وکلا دیکھیں گے کہ کوئی وکیلِ صفائی اپنے مؤکل کی سزا کم کروانے کے لیے لاک ڈاؤن کا جواز بنائے گا تو وہ بھی اپنے مقدمات میں اس دلیل کا استعمال کریں گے۔ "مجھے خوف ہے کہ اب خواتین کو قتل کرنے کے بعد سزاؤں سے بچنے کے لیے کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے ذہنی و نفسیاتی اثرات کا بہانہ استعمال کیا جائے گا اور وکیلوں کی کوشش ہوگی کہ ان کے ظالمانہ قتل کو ‘قتلِ خطا’ قرار دیا جائے گا یا ان کی سزائیں کم کی جائیں گی۔
کیرن اسمتھ نے یہ منصوبہ جنوری 2012ء میں تب شروع کیا تھا جب مشرقی لندن میں ایک نوعمر لڑکی کا قتل ہوا تھا۔ تب سے انہوں نے مردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کی سامنے آنے والی خبریں جمع کرنا شروع کیں تاکہ جان دینے والی خواتین محض ایک نمبر نہ بنیں بلکہ ان کے نام ریکارڈ پر موجود رہیں۔
انہوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران وبائی ایام میں بھی یہ کام کیا ہے اور مردوں کے ہاتھوں خواتین کے قتل کے واقعات کا ریکارڈ مرتب کیا، جس میں انہیں پتہ چلا کہ پہلی بار لاک ڈاؤن لگنے کے بعد 12 ماہ میں کم از کم 112 خواتین قتل کی جا چکی ہیں۔ اس میں 23 مارچ سے لے کر سال 2020ء کے اختتام تک 81 قتل بھی شامل ہیں اور 2021ء میں اب تک ماری جانی والی 31 خواتین بھی۔
لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ہر سال ‘فریڈم آف انفارمیشن’ قانون کا استعمال کر کے قتل ہونے والی خواتین کی حقیقی تعداد جانے کے لیے درخواست بھیجتی ہیں اور ہر سال انہیں مزید کئی کیسز کا پتہ چلتا ہے۔ رواں سال انہوں نے اب تک یہ درخواست نہیں بھیجی جس سے 2020ء کے دوران مردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کی حقیقی تعداد کا ابھی اندازہ نہیں ہوا لیکن کیرن اسمتھ کو پتہ ہے کہ یہ تعداد کہیں زیادہ پریشان کُن ہوگی۔
وہ بتاتی ہیں کہ لاک ڈاؤن لگنے کے بعد 21 دنوں میں مردوں کے ہاتھوں گھریلو تشدد پر مبنی ہونے والے 18 قتل بھی اس کا حصہ ہیں۔ انہوں نے انتہائی ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا کہ اس کے بعد یہ سطح "معمول” پر آ گئی، کیونکہ وہ کہتی ہیں کہ مردوں کے ہاتھوں خواتین کے قتل کو "معمول” نہیں سمجھنا چاہیے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں پولیس کو رپورٹ ہونے والے ریپ کے کیسز بڑھے ہیں لیکن عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی کے لیے دیے گئے وقت میں کمی آئی ہے۔ مارچ 2020ء تک مکمل ہونے والے سال میں انگلینڈ اور ویلز میں پولیس میں درج ریپ کے کیسز کی تعداد 58,856 تھی۔ البتہ صرف 2,012 ایسے تھے جو عدالت میں پیروی کے مرحلے تک پہنچے جبکہ اس سے پہلے 12 مہینوں میں یہ تعداد 3,043 تھی۔
برطانیہ میں قتل ہونے والی خواتین اور مرد قاتلوں کے حوالے سے معلومات کا ایک اہم ذریعہ Femicide Census ہے، جس نے پایا ہے کہ ملک میں اوسطاً ہر تیسرے دن مرد کے ہاتھوں ایک عورت کا قتل ہوتا ہے۔ ادارے کی 10 سالہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ 2009ء سے 2018ء کے دوران برطانیہ میں 1,425 خواتین مردوں کے ہاتھوں ماری گئیں۔
Pingback: لندن میں سبینا نسا کا قتل، خواتین کے تحفظ پر خدشات پھر ابھرنے لگے - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: مارشل آرٹس، پیپر اسپرے: برطانوی خواتین خود کو مسلح کرنے لگیں - دی بلائنڈ سائڈ