روایتی معاشروں میں عام تصور یہی ہوتا ہے کہ خواتین گھر اور بچوں کو سنبھالیں اور مرد خاندان کے لیے کما کر لائے۔ اس صورت حال کو برقرار رکھنے کی ایک انتہائی قسم ہے ملازمت کرنے والی خواتین پر گھریلو تشدد۔
بھارت کے شہری علاقوں میں جو خواتین ملازمت کرتی ہیں، ان کو گھریلو تشدد کا سامنا اُن خواتین کے مقابلے میں زیادہ کرنا پڑتا ہے جو کام کے لیے گھر سے باہر نہیں جاتیں۔ 2015-16ء میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد 27 فیصد تھی جبکہ صرف گھریلو ذمہ داریاں انجام دینے والی خواتین میں یہ تعداد 20 فیصد تھی۔
یہ وقت ہے گھریلو تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا، چاہے خواتین گھر سے باہر جا کر کماتی ہوں یا نہ کماتی ہوں۔
بھارت کے شہری علاقوں میں افرادی قوت میں خواتین کی شرح ایک کم سطح پر ہی رُکی ہوئی ہے، باوجود اس کے کہ ان میں تعلیم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 2018-19ء میں کام کی عمر رکھنے والی (20 سے 59 سال کی) خواتین میں صرف ایک چوتھائی ہی ایسی ہیں جو کوئی ایسا کام کرتی ہیں جس میں تنخواہ ملتی ہو۔
افرادی قوت میں خواتین کی شرح میں اس کمی کی کئی وجوہات ہیں، جس میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونا اور چائلڈ کیئر سہولیات کی عدم موجودگی۔
لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ملازمت اختیار کرنے پر خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے سے ان کے گھریلو تشدد کا سامنا کرنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے محض روزگار کے مواقع پیش کرنا کافی نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی عوامل کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔
خواتین کا تنخواہ کی وجہ سے مالی طور پر یا ملازمت کی بدولت ویسے ہی خود مختار ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان پر گھریلو تشدد میں کمی آئے گی۔
صنفی لحاظ سے سماجی و ثقافتی اقدار مرد اور خواتین کے ذہنوں میں اندر تک اپنی جڑیں رکھتی ہیں۔ جب بھی کوئی خاتون کسی مضبوط سماجی و ثقافتی اصول کی پیروی کرتی ہیں تو وہ انفرادی و اجتماعی طور پر ایسے لوگوں سے تائید پاتی ہیں جبکہ ان اصولوں سے انحراف دونون کے ہاتھوں نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔
جب کوئی عورت تنخواہ حاصل کرتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا شوہر تشدد کے ذریعے اپنی اہمیت (یا مارشل اتھارٹی) برقرار رکھنے کی کوشش کرے۔
جب خواتین ملازمت اختیار کرتی ہیں تو انہیں اپنی اہمیت میں کمی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں اپنے روایتی کردار کو پوری طرح ادا نہیں کر پاتیں۔ اگر خواتین ملازمت کے دوران خود کو مجرم تصور کریں تو ان کے ذہن میں یہ بات بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ گھریلو تشدد دراصل ان کے اٹھائے گئے اپنے اقدامات کا نتیجہ ہے۔
یہ بالخصوص ان ثقافتوں میں ایک حقیقت ہے کہ جہاں شادی کو زندگی بھر کا عہد سمجھا جاتا ہے اور قرار دیا جاتا ہے کہ شادی کو چلانا عورت کی ذمہ داری ہے۔ معروف جریدے ‘Feminist Economics’ کے آئندہ مقالے میں اسے کو ‘خواتین کا احساسِ جرم’ کہا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود پر ہونے والے گھریلو تشدد کو بھی قبول کر لیتی ہیں۔
اس مقالے میں گہا گیا ہے کہ بھارت کے شہری علاقوں میں کام کرنے والی خواتین بچوں کو نظر انداز کرنے، شوہروں سے الجھنے اور بحث کرنے اور انہیں بتائے بغیر باہر جانے کی وجہ سے ہونے والے تشدد کو ذہنی طور پر قبول کر لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین کو گھریلو خواتین کے مقابلے میں ‘مرد کے ردعمل’ کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بھارت میں روایتی طور پر ملازمت نہ کرنے والی خواتین کو ‘خاندان کی عزت بڑھانے والی’ سمجھا جاتا ہے۔ شمالی و مغربی علاقوں میں کم تعلیم یافتہ خواتین کو مردوں کے زیادہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ تعلیم، احساسِ خود مختاری اور افرادی قوت میں شمولیت کی تاریخ رکھنے والی خواتین میں یہ شرح کم ہے۔
اس پورے منظرنامے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ زیادہ تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ خواتین کو گھریلو تشدد کا اتنا سامنا نہیں، جتنا گھریلو خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔ کم اور اوسط درجے کی تعلیم رکھنے والی خواتین کو مردوں کے زیادہ ردعمل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ اوسط تعلیم رکھنے والی خواتین کو ‘احساسِ جرم’ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
اوسط تعلیم رکھنے والی خواتین کا رحجان ان شعبوں کی طرف ہوتا ہے جنہیں سماجی طور پر خواتین کے لیے قبول نہیں کیا جاتا یا اس سے معاشرے میں ان کے خاندان کا اسٹیٹس متاثر ہوتا ہے۔ کم تعلیم یافتہ اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو کوئی خاص ‘احساسِ جرم’ نہیں ہوتا کیونکہ انہیں اور ان کے خاندان کو بھرپور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے کام کر رہی ہیں، محض اپنے شوق یا اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے نہیں۔
مارچ کو خواتین کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے، اس لیے اس میں ایسے منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو سماج میں خواتین اور مردوں دونوں کے حوالے سے رچے بسے تصورات کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔
یہ وقت ہے پالیسی میں تبدیلیوں کا، جن کی توجہ خاص طور پر نوجوان خواتین پر ہو اور سب سے اہم یہ کہ ان سے تعلیم میں صنفی تفریق کو کم کیا جا سکے۔ کیونکہ گھریلو تشدد آج بھی ایسا موضوع ہے جس پر عام بات نہیں کی جاتی۔
Pingback: ملائیشیا، گھریلو تشدد کی شکار 826 خواتین کی مدد کی گئی - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: اکیسویں صدی میں بھی گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ صرف عورت کے کاندھوں پر - دی بلائنڈ سائڈ